سپریم کورٹ میں آئینی کیسز سے متعلق سماعت کا آغاز ہوگیا، سب سے پہلے ماحولیاتی آلودگی سے متعلق کیس پر سماعت ہوئی، 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد جمعرات کو پہلی بار سپریم کورٹ میں آئینی بینچ کیسز کی سماعت ہوئی۔جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں آئینی بینچ نے ما درخواست کی سماعت کی، بینچ میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس مسرت ہلالی شامل تھیں۔دوران سماعت جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دئیے کہ ماحولیات سے متعلق تمام معاملات کو دیکھیں گے جبکہ جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا ملک میں ہر جگہ ہائوسنگ سوسائٹیز بنائی جارہی ہیں، جسٹس نسیم حسن شاہ کو خط آیا تھا کہ اسلام آباد کوصنعتی زون بنایا جا رہا ہے۔جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا ماحولیاتی آلودگی صرف اسلام آباد نہیں پورے ملک کا مسئلہ ہے، گاڑیوں کا دھواں ماحولیاتی آلودگی کی بڑی وجہ ہے، کیا دھویں کو روکنے کی کوشش کی جارہی ہے؟جس پنجاب کی حالت دیکھیں سب کے سامنے ہے۔اسلام آباد میں بھی چند روز قبل ایسے ہی حالات تھے۔جسٹسنعیم اختر کا کہنا تھا ہائوسنگ سوسائٹیز کے باعث کھیت کھلیان ختم ہو رہے ہیں، کاشتکاروں کو تحفظ فراہم کیا جائے، قدرت نے ہمیں زرخیز زمین دی ہے لیکن سب اسے ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں، آپ اپنی نسلوں کے لیے کیا کرکے جا رہے ہیں۔ جسٹس محمدعلی مظہر نے استفسار کیا کہ انوائرمنٹ پروٹیکشن اٹھارٹی اپنا کردار ادا کیوں نہیں کررہی؟ ۔جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا پنجاب کی حالت دیکھیں سب کے سامنے ہے، اسلام آباد میں بھی چند روز قبل ایسے ہی حالات تھے۔جسٹس محمدعلی مظہر کا کہنا تھا انوائرمنٹ پروٹیکشن اٹھارٹی اپنا کردار ادا کیوں نہیں کر رہی؟ 1993 سے معاملہ چل رہا ہے، اب اس معاملے کو ختم کرنا ہو گا۔جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا پورے ملک کو ماحولیات کے سنجیدہ مسئلے کا سامنا ہے، پیٹرول میں کچھ ایسا ملایا جاتا ہے جو آلودگی کا سبب بنتا ہے۔جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس میں کہا مانسہرہ میں جگہ جگہ پولٹری فارم اور ماربل فیکٹریاں کام کر رہی ہیں، سوات میں چند ایسے خوبصورت مقامات ہیں جو آلودگی کا شکار ہو چکے ہیں۔
آئینی بینچ نے ملک میں بڑھتی ماحولیاتی آلودگی پر تشویش کا اظہارکرتے ہوئے ماحولیاتی آلودگی سے متعلق اقدامات پر تمام صوبوں سے رپورٹ طلب کر لی، آئینی بینچ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی استدعا پر سماعت تین ہفتوں کے لیے ملتوی کردی۔ دریں اثناء سپر یم کورٹ کے آئینی بینچ میں سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی بطور چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ تعیناتی نظرثانی درخواست پر سماعت ہوئی، جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 6 رکنی آئینی بینچ نے آئینی کیس کی سماعت کی۔عدالت عظمی کے آئینی بینچ نے قاضی فائز عیسی کے خلاف دائر ظرثانی درخواست خارج کردی۔ دوران سماعت جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ یہ نظرثانی درخواست ہے، کیس کو دوبارہ نہیں کھول سکتے، جس پر درخواست گزار کے وکیل ریاض حنیف نے کہا کہ سپریم کورٹ نے بھٹو کیس بھی 40 سال بعد سنا۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ یہ فورم سیاسی تقاریر اور نہ بیک بائٹنگ کا ہے، قانون سے نہیں ہٹ سکتے۔ جسٹس محمدعلی مظہر آپ غصے میں کیوں آرہے؟ عدالت کی بات سنیں۔جسٹس امین الدین نے استفسار کیا کہ عدالت آپ سے سوالات پوچھ رہی لیکن آپ جواب کیوں نہیں دے رہے؟جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ آپ کیس دوبارہ کھولنا چاہتے ہیں؟ جس پر درخواست گزار وکیل ریاض حنیف نے جواب دیا کہ میں عدالت کو حقائق بیان کررہا ہوں، میرے پاس ریکارڈ نہیں لیکن بلوچستان سے ریکارڈ منگوایا جاسکتا ہے۔ جسٹس امین الدین نے کہا کہ قانون بتائیں کہ وزیراعلی کے ساتھ مشاورت کیسے ضروری ہے؟ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ کیسز میں پرسنل نہ ہوا کریں، چھوڑ دیں قاضی صاحب کی جان۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ایسی درخواست پر بینچ کے سربراہ سے درخواست کروں گا کہ معاملہ پاکستان بار کونسل کو بھیجیں۔آئینی بینچ نے درخواست گزار وکیل ریاض حنیف کی نظرثانی درخواست خارج کردی۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ مقدمات میں ذاتیات پر نہیں آتے، یہ مقدمہ قانونی کم اور سیاسی زیادہ لگ رہا ہے، پیٹھ پیچھے کسی کی برائی کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی