قائم مقام صدر سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث پاکستان کو بڑے چیلنجز کا سامنا ہے جو ملک میں پائیدار ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی کوششوں سے ملک ڈیفالٹ سے بچ گیا ہے تاہم ماحولیاتی چیلنج بدستور ہیں۔ اس امر کا اظہار انہوں نے پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی کے زیر اہتمام "نازک صورتحال سے استحکام کی جانب: پائیدار ترقی کو فروغ دینا" کے موضوع پر 27ویں پائیدار ترقی کانفرنس کے افتتاحی اجلاس کے دوران کیا۔ جس کا انعقاد وزارت موسمیاتی تبدیلی کے تعاون سے کیا ۔سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ قومی پالیسی برائے ماحولیاتی و پائیدار ترقی میں غربت کے خاتمے، خواتین کو بااختیار بنانے، زراعت، آبی وسائل اور توانائی کے موثر استعمال کیلئے جامع حکمت عملی وضع کی گئی ہے۔خوراک کے تحفظ پر گفتگو کرتے ہوئے انہوںنے ایک ایسے نظام کی ضرورت پر زور دیا جو ماحولیاتی تبدیلی کو برداشت کرتے ہوئے غذائی تحفظ کو یقینی بناسکے۔ اس موقع پر وزیراعظم کی کوآرڈینیٹر برائے ماحولیاتی تبدیلی رومینہ خورشید عالم نے موسمیاتی تبدیلی کے شدید اثرات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ جنوبی ایشیا کے 75 کروڑ افراد گزشتہ دو دہائیوں میں قدرتی آفات سے متاثر ہوئے ہیں ۔ رومینہ عالم نے اسموگ کے مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ سرحد پار سے آنے والی اسموگ خاص طور پر لاہور میں صحت کے مسائل پیدا کر رہی ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ کانفرنس سےحاصل ہونے والی سفارشات عالمی ماحولیاتی کانفرنس COP-29 میں پاکستان کے مقدمے کو مضبوط بنانے میں مددکریں گی ۔قبل ازیں ایس ڈی پی آئی کے سر براہ ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے اپنے تعارفی کلمات میں کہا کہ یوکرین اور روس کی جنگ کے اثرات پاکستان سمیت دنیا بھر کی معیشتوںکا متاثر کیا ہے جس سے اخراجات میں اضافہ ہوا ہے ۔ایس ڈی پی آئی کے بورڈ آف گورنرز کے چیئرمین شفقت کاکاخیل نے موسمیاتی بحران جیسے عالمی مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ تنازعات دنیا بھر کے 1.1 ارب افراد کو متاثر کر رہے ہیں۔
ماحولیاتی توازن کے لئے مو¿ثر حل کےلئے منعقدہ کانفرنس کے دوسرے سیشن سے خطاب کرتے ہوئے سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ماحولیاتی تبدیلی و رابطہ کاری کی چیئرپرسن سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ بھارت میں فصلوں کی باقیات جلانے کی وجہ سے لاہور میں سموگ کی زد میں ہے ۔ یہ امر مسلمہ ہے کہ دیوار بنانا ممکن نہیں ہے جبکہ مناسب حل تجویز کیا جا سکتا ہے جو کہ سرحد پار سے آلودگی کو روک سکے۔شیری رحمان نے ایس ڈی پی آئی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ماحولیاتی آلودگی کو نعرہ بنانے کی بجائے پائیدار حل کیلئے جدوجہد کرے۔ انہوں نے مذید کہا کہ سموگ کے باعث ہونے والی بیماریاں تیزی سے عام ہو رہی ہیں۔جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ جامع حکمت عملی مرتب کی جائے۔شیری رحمان نے کہا کہ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہونے والے ممالک کی فہرست میں پانچویں نمبر پر ہے جبکہ خطرہ اس سے کہیں زیادہ ہے اور ہمارے وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں۔انہوں نے ماحولیاتی ایمرجنسی پرمیڈیا کی عدم توجہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کو محض ایک آفت سمجھاجا رہا ہے حالانکہ ماحولیاتی تبدیلی ہمارے آس پاس اور ہمارے شہروں سے شروع ہوتی ہے جوتباہی کا سبب بن رہی ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ ایس ڈی پی آئی کو ماحولیاتی تبدیلی پر توجہ دینے والے صحافیوں کو اعزاز دینے کے لئے ”صحافی کیٹیگری“ رکھنی چاہئے ۔انہوں نے پانی کے معاملے پر کہا کہ پاکستانی شہریوں کا فی کس پانی کا استعمال دنیا میں سب سے زیادہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم پانی جیسی قیمتی اور قدرتی نعمت کو ضائع کر رہے ہیں ۔انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ روزانہ کی بنیاد پر بڑی مقدار میں غیر فلٹر شدہ فضلہ راول ڈیم میں ڈالا جا رہا ہے، جو کہ راولپنڈی اور اسلام آباد کا اہم آبی وسیلہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم خوراک کے ذریعے براہ راست مائیکرو پلاسٹکس کھا رہے ہیں، جس سے بیماریوں کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے اورنظام صحت پر دباﺅ بڑھ رہا ہے۔ بعد ازاں سینیٹر شیری رحمان نے دوسرے پائیداری سرمایہ کاری ایکسپو 2024 کا بھی افتتاح کیا۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی