بھارتی ذرائع ابلاغ نے حکومت اور پی ٹی آئی کے مابین مذاکرات کے آغاز کو متحارب کیمپوں کے درمیان برف پگھلنے اور ہوا کے رخ کی تبدیلی کا اشارہ قراریتے ہوئے کہا ہے کہ بات چیت کے آغاز سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسٹبلشمنٹ کی حمایت یافتہ حکومت نے بالآخر پی ٹی آئی کے کچھ مطالبات مان لیے ہیں۔حکومت اور اپوزیشن کے درمیان پیر کو مذاکرات کا پہلا دور خوشگوار انداز میں ہوا۔مذاکرا ت پر تبصر ے کرتے ہوئے بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ یہ اقدام سیاسی قیدیوں بشمول عمران خان کی رہائی سمیت متعدد متنازع معاملات کو حل کرنے کی طرف ایک قدم ہے۔بھارتی میڈیا نے دعوی کیا کہ عمران خان کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ نہ چلانے کا معاملہ میز پر ہے۔ اگرچہ کسی بھی فریق نے اپنے کارڈز شو نہیں کئے ہیں اور پی ٹی آئی سے باقاعدہ تحریری مطالبات مانگے گئے ہیں، تاہم، خیال یہی ہے کہ عمران کی رہائی سرفہرست مطالبات میں شامل ہے۔ بھارتی میڈیا کا دعوی ہے کہ بات چیت کے آغاز سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسٹبلشمنٹ کی حمایت یافتہ حکمران جماعت نے بالآخر پی ٹی آئی کے کچھ مطالبات مان لیے ہیں۔ تاہم بڑھتا ہوا بین الاقوامی دبا ئو اس طویل مدت سے التوا کے شکار مذاکرات کی وجہ ہے۔
بین الاقوامی برادری کی جانب سے اٹھائی جانے والی آوازوں، بشمول انسانی حقوق کی تنظیموں نے عمران خان کی رہائی کے لیے دبا ئومیں کردار ادا کیا ہے۔بھارتی میڈیا کے مطابق ماضی قریب میں عمران خان کی رہائی کے لیے دنیا بھر سے بااثر لوگوں کے بیانات میں اضافہ ہوا ہے۔نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قریبی ساتھی رچرڈ گرینیل سے لے کر برطانوی رکن پارلیمنٹ جارج گیلووے اور برطانیہ کے سابق اپوزیشن لیڈر جیریمی کوربن تک سبھی نے عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ان کالز نے پاکستان اور بیرون ملک عمران خان کے حامیوں کی خاصی توجہ مبذول حاصل کی ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق جہاں عمران خان کی پارٹی پی ٹی آئی ان کی رہائی کے مطالبے پر ثابت قدم ہے، وہیں حکومت نے اس پر عمل کرنے کا اشارہ بہت مبہم انداز میں دیا ہے۔بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ یہ اندرونی اور عالمی دونوں طرح کا دبا ئوہے جس نے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو مذاکرات کی میز پر بٹھا کر دیگر چیزوں کے علاوہ عمران خان کی جیل سے رہائی پر بات کرنے پر مجبور کیا ہے۔
کریڈٹ : انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی