حکومت پبلک سیکٹر میں نان گزیٹڈ اسٹاف سے شروع کرکے بنیادی تنخواہوں کے اسکیلز (بی پی ایس) کو ختم کرنے پر غور کر رہی ہے، اور ان کی جگہ کنٹریکٹ پر مبنی افرادی قوت کو پبلک سیکٹر میں اصلاحات کے حصے کے طور پر لایا جا رہا ہے تاکہ بجٹ پر طویل مدتی کیش بوجھ کو کم کیا جا سکے۔ میڈیارپورٹ کے مطابق مجوزہ اصلاحات میں سے ایک اور میں تمام وفاقی پبلک سیکٹر کی طبی سہولیات کو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ (پی پی پی) کی بنیاد پر طبی سیاحت کے لیے نیم تجارتی مراکز میں تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے، تاکہ حکومت کے سماجی و اقتصادی مقاصد کے لیے وفاقی بجٹ پر بوجھ ڈالنے کے بجائے فنڈز حاصل کیے جا سکیں۔ رپورٹ کے مطابق ذرائع کا کہناہے کہ وزارت خزانہ نے ان اقدامات پر عالمی بینک سمیت کثیر الجہتی قرض دینے والی ایجنسیوں کے ساتھ بات چیت کی ہے اور ان پر عمل درآمد کے لیے ان کی تکنیکی اور مالی مدد حاصل کر سکتی ہے۔حکومت نے پہلے ہی پنشن اصلاحات جاری کردی ہیں جس کے تحت پنشن کے موجودہ نظام کی جگہ سول اور مسلح افواج میں مستقبل میں ہونے والی تمام بھرتیوں میں شراکتی پنشن اسکیمیں متعارف کرائی گئی ہیں۔ اس کا مقصد پنشن بل میں اضافے کو محدود کرنا ہے جو کہ 10 کھرب روپے سے تجاوز کر گیا ہے، جس میں موجودہ سال کے بجٹ میں فوجی پنشن کی مد میں 665 ارب روپے اور سول پنشن کی مد میں 220 ارب روپے سے زیادہ شامل ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے اگرچہ سینٹرل سپیریئر سروس (سی ایس ایس) اور صوبائی سروس کمیشن (پی ایس سی) کے امتحانات کے ذریعے بھرتی ہونے والے موجودہ افسران کے حقوق محفوظ رہیں گے، لیکن تازہ بھرتیوں کی اکثریت طویل مدتی فوائد جیسے طبی تحفظ کے بغیر یکمشت تنخواہوں پر ہوگی، تاہم انہیں انشورنس کی سہولت حاصل ہوگی۔
اس طرح کی بھرتی پر کارکردگی کے کلیدی اشاریوں کی بنیاد پر تین سے چھ ماہ کے نوٹس پر برطرف کیے جانے یا اخراج سے مشروط ہوگی اور اس طرح عوامی خزانے پر طویل مدتی کیش بوجھ کو کم کرنے میں مدد ملے گی، کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ بی پی ایس سسٹم میں بہت سے حوالوں سے بجٹ پر بوجھ بڑھتا ہے جن میں پنشن، میڈیکل کوریج، الانسز وغیرہ شامل ہیں۔اس اقدام سے ابتدائی طور پر 35 سے 40 ارب روپے کی سالانہ بچت ہونے کا تخمینہ ہے بشرطیکہ وفاقی وزارتوں کے علاوہ تمام ادارے اور کارپوریشنز، بی پی ایس سسٹم کے غبارے کے اثر سے نکل کر خصوصی پیکج کی طرف منتقل ہوں۔ علاوہ ازیں ذرائع نے بتایا کہ وفاقی حکومت کے زیر انتظام ہسپتال جیسے کہ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) ، فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہسپتال یا پولی کلینک، کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے )ہسپتال، شیخ زید ہسپتال لاہور اور جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل کمپلیکس ہسپتال کراچی کے ساتھ ساتھ متعدد ڈسپنسریوں کو قابل توسیع مدت کے معاہدوں یا پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت آٹ سورس کیا جائے گا۔ذرائع کے مطابق سی ڈی اے ہسپتال کی آٹ سورسنگ کا عمل پہلے ہی سے جاری ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ان ہسپتالوں پر تقریبا 10 ارب روپے خرچ کیے جاتے ہیں جو غریبوں کو صحت کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے خود سے فنڈز پیدا کر سکتے ہیں۔ ایک عہدیدار نے کہا کہ صرف پمز کی مینٹیننس کے لیے سالانہ تقریبا 3 ارب روپے درکار ہیں حالانکہ اس کی وسیع اراضی میں بلند و بالا عمارتوں کی گنجائش ہے جو کہ وسائل پیدا کر سکتی ہے اور آغا خان فانڈیشن جیسے اداروں کی مدد سے طبی صحت کی بہتر سہولیات کے ساتھ طبی سیاحت کو راغب کر سکتی ہے۔عہدیدار کے اندازے کے مطابق، معیار کی یقین دہانی، ہموار عمل درآمد اور بیرونی امداد کے ساتھ، صرف اسلام آباد میں قائم صحت کی سہولیات کا تخمینہ ہے کہ وہ پانچ سال سے بھی کم عرصے میں 80 ارب روپے سے 100 بلین روپے پیدا کر سکتی ہیں۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی