حکومت نے اقتصادی اصولوںکے پیش نظر آئندہ بجٹ میں ٹیکسوں میں مزید اضافہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے یہ بات وزیر اعظم کے معاون رانا احسان افضل نے وزارت موسمیاتی تبدیلی کے اشتراک سے منعقدہ پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی کی سالانہ کانفرنس کے دوسرے دن ”قرض، اقتصادی انصاف اور ترقی“ کے موضوع پر اظہار خیال کر تے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت سنجیدہ مالیاتی اصلاحات کر رہی ہے تاکہ عالمی مالیاتی فنڈکے پچیسویں پروگرام کو مکمل کیا جا سکے اور یہ ملک کیلئے آخری ±پروگرام ثابت ہوگا۔ رانا احسان افضل نے بیرونی قرضوں میں اضافے کی وجہ کھپت پر انحصار کرنے والی معیشت کو قرار دیا۔ قومی اسمبلی کے رکن اور متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ حکومت، سیاسی جماعتوں اور اپوزیشن کے مابین عدم قبولیت کی صورتحال پالیسی سازوں کو معاشی بحالی کیلئے اصلاحی اقدامات سے روک رہی ہے، جس کی وجہ سے ملک کی معیشت محض علامتی علاج پر زندہ ہے۔ایس ڈی پی آئی کے ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر ساجد امین جاوید نے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے موضوع کا تعارف پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ قرض کی بات چیت محض اعداد و شمار تک محدود ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ٹیکسوں کا بوجھ عوام کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ایف ای ایس کے عبداللہ ڈیو نے ابتدائی کلمات میں کہا کہ اجلاس کا موضوع انتہائی اہم ہے کیونکہ ملک کا بڑھتا ہوا قرض کا بوجھ مالیاتی گنجائش کو متاثر کر رہا ہے۔ فنانس ڈویژن کے ڈی جی محسن مشتاق نے کہا کہ سال 2022 ترقی پذیر ممالک بشمول پاکستان کیلئے مشکل سال رہا کیونکہ ماحولیاتی آفات اور مہنگائی میں اضافے نے عوام اور حکومت کی اقتصادی مشکلات میں اضافہ کیا۔یو این ای ایس سی اے پی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر حمزہ علی ملک نے کہا کہ پاکستان کے بڑھتے ہوئے قرض کی وجہ انتظامی صورتحال ، معاشی اور مالیاتی بدانتظامی ہے جبکہ ملک میں قرض کے استعمال کے بعد کی صورتحال کیلئے مزید تحقیق اور حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔
پرائم انسٹیٹیوٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر علی سلمان نے کہا کہ قرض اس کی تنظیم اور قرض کے انصاف کے حوالے سے اعداد و شمار گمراہ کن ہو سکتے ہیں کیونکہ ان معاملات میں اقتصادی اور سیاسی استحکام بھی ضروری ہے۔یو این ڈی پی کی عمارا درانی نے کہا کہ عالمی مالیاتی نظام پاکستان جیسے ترقی پزیر ممالک کیلئے غیر مو¿ثر ثابت ہوا ہے اور اقوام متحدہ نے بھی اس نظام کو مسائل سے بھرپور قرار دیا ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس پورے نظام کا ازسر نو جائزہ لیا جائے۔ مشرف زیدی نے کہا کہ عالمی تجارتی بینک پاکستان کو بڑے پیمانے پر قرضے فراہم کر رہے ہیں حالانکہ ڈیفالٹ کو خطرہ بدستور ہمارے سروں پر منڈلا رہا ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے امتیاز علی سولنگی نے کہا کہ ملک کو قرض کی تنظیم کی منصوبہ بندی شروع کرنی چاہئے۔ اس میں شراکت داروں کے ساتھ بات چیت اور قرض دہندگان کے ساتھ مذاکرات شامل ہیں۔کانفرنس کے سی پیک 2.0 کے تحت اقتصادی زونز کی ترقی کے موضوع پر دوسرے سیشن میں چینی کاروباری نمائندوں نے پاکستانی حکومت سے درخواست کی کہ وہ سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے لئے ون ونڈو آپریشن، پالیسیوں کا تسلسل اور سرمایہ کاروں کی سلامتی کو ترجیح دے۔چینی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری پاکستان کے چیئرمین وانگ ہوئی ہوئی نے تجویز دی کہ پاکستان کو چینی نجی شعبے کی سرمایہ کاری کےلئے محفوظ ماحول فراہم کرنا چاہئے۔
انہوں نے زور دیا کہ پاکستان چین کے گرین اسپیشل اکنامک زونز کے ماڈل سے سیکھ کر پائیدار اقتصادی ترقی حاصل کر سکتا ہے۔پاکستان چین انسٹیٹیوٹ کے چیئرمین مشاہد حسین نے چین کے عالمی اقتصادی ترقی میں کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ دنیا کی مجموعی ترقی کا 30 فیصد چین سے آ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین کے ایران کے ساتھ 400 بلین ڈالر کی شراکت اور واخان کوریڈور(Wah Khan Corridor) کی تعمیر سے پاکستان سمیت وسطی ایشیائی ریاستوں کو فائدہ ہوگا۔پاکستان چین انسٹیٹیوٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مصطفیٰ حیدر سید نے ایس ای زیڈز کی نگرانی کیلئے ایک خودمختار ادارے کے قیام پر زور دیا۔ سینئر مشیر برائے انرجی چائنہ حسن داو¿د بٹ نے ایس ای زیڈز کی کامیابی کے لیے مقامی سازی کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور کہا کہ چینی کمپنیاں پیکجنگ اور توانائی جیسی صنعتوں میں دلچسپی لے رہی ہیں۔پاکستان کے بورڈ آف انویسٹمنٹ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ارفہ اقبال نے کہا کہ ہمیں سی پیک کے تحت ایس ای زیڈز کو نجی شعبے کی شمولیت پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔ایشیئن انسٹیٹیوٹ آف ایکو سولائزیشن، ریسرچ، اینڈ ڈویلپمنٹ کے سی ای او شکیل احمد رائے نے سی پیک سرمایہ کاری کے انتظام کیلئے مو¿ثر اور مربوط حکمت عملی اپنانے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ مختلف ادارے جیسے اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن سینٹر (ایس آئی ایف سی) اور بی او آئی کی مشترکہ ذمہ داریاں مسائل اور ابہام پیدا کرتی ہیں۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی