سابق وزیر فواد چودھری نے دعوی کیا ہے کہ خواجہ آصف 24 گھنٹے فیض حمید کے گھر بیٹھے رہتے تھے، ن لیگ والوں کی تو ان کے ساتھ بڑی دوستیاں تھیں، پاکستان میں یہ رواج ہے کہ جو شخص چلا جاتا ہے، لوگ اس کی برائیاں شروع کر دیتے ہیں۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ 1990کی دہائی میں صدر، وزیراعظم اور آرمی چیف کا ایک ٹرائیکا تھا، پھر ایک وقت آیا جب چیف جسٹس نے صدر کی جگہ لے لی، اب ایک ٹرائیکا ہے ، وہ ٹرائیکا حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کا ہے، یہ ٹرائیکا جب فریم ورک میں چلا تو ملک نے ترقی کی اس کے برعکس ملک نہیں چلا۔حکومت نے فیصلہ کرنا ہے کہ معاملات کو الجھانا ہے یا سلجھانا ہے، عمران خان کو دو سال مائنس کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن پی ٹی آئی کو مائنس کردیا گیا، پی ٹی آئی کو مائنس کرنے کے چکر میں ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی اپنی سیاست مائنس ہوگئی ہے۔جوڈیشری بھی مائنس ہوگئی ہے۔اس وقت کوئی میکانزم نہیں ہے، 2018 اور 1988 کے الیکشن میں کوئی فرق نہیں تھا، لیکن 2024 کے الیکشن میں فرق تھا۔عمران خان کو ایک اور کیس میں سزا دے دی جائے تو کیا فرق پڑے گا؟دوسالوں میں عمران خان کا متبادل پیدا نہیں کرسکے۔ اسٹیبلشمنٹ کا گلہ تو بنتا ہے کہ حکومت بھی مینیج کرکے دی گئی، کیسز ختم کئے، لیکن اپنی سیاست بھی کریں۔ حکومت کی 9 مئی کے علاوہ کوئی سیاست نہیں ہے، حکومت 9 مئی کا دن میں 365 بار ورد کرتی ہے، اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان لڑتے رہیں جبکہ نوازشریف اور زرداری کمپنی پیسے بناتے رہیں۔
کریڈٹ : انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی