سپریم کورٹ میں سپر ٹیکس کیس کی سماعت کے دوران مختلف کمپنیوں کے وکیل فروغ نسیم نے دلائل دیتے ہوئے بتایا کہ بنگلا دیش میں بینکوں پر 21 فیصد جبکہ پاکستان میں 93 فیصد ٹیکس عائد ہے۔فروغ نسیم نے موقف اختیار کیا کہ مختلف نوٹی فکیشنز کے ذریعے کسٹمز ڈیوٹی مقرر کی جاتی ہے جب کہ سیکشن 31 اے کے بعد درآمدات پر سیلز ٹیکس عائد نہیں کیا جا سکتا۔ انکم ٹیکس کا نظام گزشتہ 200 سال سے اسی طرز پر چل رہا ہے۔ دورانِ سماعت جسٹس امین الدین نے ریمارکس دئیے کہ اخراجات کے بعد صورتحال واضح ہو جاتی ہے اور ٹیکس ریٹرن سے ہی ٹیکس دہندہ کی اصل پوزیشن سامنے آتی ہے۔وکیل فروغ نسیم نے کہا کہ ان کا کھاتہ 10 ماہ پہلے بند ہو چکا، پھر ٹیکس کیسے لگایا جا سکتا ہے؟ جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ آپ کہنا چاہتے ہیں باغ ختم نہ کریں، صرف پھل کھائیں؟۔بعد ازاں سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے سپر ٹیکس سے متعلق مقدمات کی سماعت آج (جمعرات ) تک ملتوی کر دی۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی