سندھ ہائی کورٹ نے لاپتا افراد سے متعلق پولیس رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے پولیس اور دیگر اداروں سے اپریل کے دوسرے ہفتے میں رپورٹس طلب کر لی اور وفاقی سیکرٹری داخلہ کو کے پی کے حراستی مراکز سے رپورٹس حاصل کرکے پیش کرنے کا حکم دیدیا، عدالت نے ریمارکس دیے ہیں کہ یہ معاملہ سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ جسٹس نعمت اللہ پھلپوٹو کی سربراہی میں سندھ ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ کے روبرو لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق درخواستوں کی سماعت ہوئی۔ عدالت نے لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق درخواستوں پر چیف سیکرٹری سندھ، سیکرٹری داخلہ، آئی جی سندھ و دیگر کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے وفاقی سیکرٹری داخلہ کو کے پی کے حراستی مراکز سے رپورٹس حاصل کرکے پیش کرنے کا حکم دیدیا۔ عدالت نے پولیس رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے متعلقہ ایس پی انویسٹی گیشن کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔ واضح رہے کہ کامران عرف کمالو، سید نوید علی کی بازیابی کی درخواستوں پر سماعت ہوئی جب کہ سید منیب علی، عبید الحسن، طاہر زمان کی بازیابی کے لیے درخواستیں زیر سماعت ہیں۔ دوران سماعت اہلخانہ نے کہا کہ کاشف علی، بابر، عطا اللہ، خلیل الرحمن بھی گمشدہ ہیں۔
درخواست گزار کی غیر حاضری پر عدالت تفتیشی افسر پر برہم ہوگئی۔ جسٹس نعمت اللہ پھلپوٹو نے ریمارکس دیے کہ آپ لوگ لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے کچھ کرتے نہیں۔ آپ لوگوں کے رویوں کی وجہ سے اہلخانہ نے عدالت آنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ کئی برس کے بعد بھی حراستی مراکز سے رپورٹ تک حاصل نہیں کرسکے۔ ایسا سخت ایکشن لیں گے کہ آپ تصور بھی نہیں کرسکیں گے۔ سرکاری وکیل نے دوران سماعت مقف دیا کہ دوسرے صوبوں سے رپورٹس حاصل کرنے میں دشواری ہورہی ہے۔ جسٹس نعمت اللہ پھلپوٹو نے ریمارکس دیے کہ لاپتا افراد کا معاملہ سنگین ہوتا جارہا ہے۔ آئی جی سندھ اور سیکرٹری داخلہ کو خود سنجیدہ کوشش کرنی چاہیے۔ عدالت نے چیف سیکرٹری سندھ، سیکرٹری داخلہ، ایڈوکیٹ جنرل سندھ اور آئی جی کو نوٹسزجاری کردیے۔ عدالت نے صوبائی اور وفاقی حکومتوں سے جامع جواب طلب کرلیا۔ عدالت نے پولیس اور دیگر اداروں سے اپریل کے دوسرے ہفتے میں رپورٹس طلب کرتے ہوئے وفاقی سیکرٹری داخلہ کو کے پی کے حراستی مراکز سے رپورٹس حاصل کرکے پیش کرنے کا حکم دیدیا۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی