لاہور ہائیکورٹ میں پنجاب میں الیکشن کی تاریخ دینے کیلئے کیس کی سماعت کے دوران فریقین کے دلائل سننے کے بعدالیکشن کمیشن کو ایک ہفتے میں حتمی تاریخ دینے کی مہلت دے دی،عدالت نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ گورنر کو چھوڑیں آپ الیکشن کی تاریخ دیدیں،پنجاب میں الیکشن کی تاریخ دینے کے لیے رہنما تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر درخواست پر سماعت لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس جواد حسن نے کی،عدالت نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ بتائیں کب کرائیں گے الیکشن؟ جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ ہم الیکشن کرانے کے لیے تیار ہیں،کل اس حوالے سے بیشررفت ہوئی ہے، گورنر نے الیکشن کمیشن کے خط کا جواب دیا ہے، گورنر نے لکھا ہے کہ الیکشن کمیشن تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرے،جسٹس جواد حسن نے ریمارکس دیے کہ آئین میں درج ہے کہ الیکشن 90روز میں ہونے ہیں، آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ معاشی صورتحال خراب ہو چکی ہے، اس سے پہلے بھی معاشی صورتحال خراب تھی مگر الیکشن تو ہوئے تھے، اعلی عدلیہ کے اس حوالے سے متعدد فیصلے موجود ہیں،وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا کہ 90روز پورے ہونے میں ابھی کافی وقت ہے، جس پر جسٹس جواد حسن نے کہا کہ آپ تاریخ تو دیں کہ الیکشن کب کرائیں گے، ہم تو وہ بات کر رہے ہیں جو آئین میں درج ہے
،وکیل وفاقی حکومت نے کہا کہ کوئی یہ نہیں کہہ رہا کہ الیکشن نہیں ہوں گے،عدالت نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ گورنر کو چھوڑیں آپ الیکشن کی تاریخ دے دیں، آپ اتنا کام کر رہے ہیں، آپ خود الیکشن کی تاریخ دے دیں،اسد عمر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کے ضمنی انتخاب کے حوالے سے شیڈول جاری کر دیا ہے، ضمنی الیکشن پورے ملک میں ہونے ہیں، ضمنی انتخابات کا شیڈول جاری کرتے وقت معاشی صورتحال کا خیال ذہن میں نہیں آیا،لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس جواد حسن نے کہا کہ اسد عمر صاحب، آج تو الیکشن کمیشن سے خوش ہو جائیں، آج الیکشن کمیشن آپ کے موقف کی حمایت کر رہا ہے، جس پر پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ الیکشن کمیشن خوش ہونے کا موقع تو دے،عدالت نے اسد عمر سے استفسار کیا کہ کیا اس کیس میں فل بینچ بنا دیں، لیکن پی ٹی آئی نے فل بینچ نہ بنانے کی استدعا کر دی،گورنر پنجاب کے وکیل بھی عدالت پیش ہوئے اور جواب جمع کرانے کے لیے وقت مانگ لیا،عدالت نے گورنر پنجاب کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کو کتنا وقت چاہیے، جس پر وکیل نے بتایا کہ مجھے 7 دن کا وقت چاہیے،اسد عمر نے کہا کہ 7دن مزید جواب کے لیے دیں گے تو کافی وقت گزر چکا ہو گا، 7 روز کا وقت دینے کا مطلب ہے اسمبلی تحلیل کو 22روز ہو چکے ہوں گے،لاہور ہائیکورٹ نے کہا کہ آپ عدالت آگئے ہیں تو بے فکر ہو جائیں، 4، 5 روز سے کچھ نہیں ہوتا۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی