i پاکستان

مقدمات سماعت کے لیے مقرر ہونے کا طریقہ کار،جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس یحیی آفریدی نے نوٹس لے لیاتازترین

February 28, 2023

جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس یحیی آفریدی نے سپریم کورٹ میں مقدمات سماعت کے لیے مقرر ہونے کے طریقہ کار سے متعلق معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے رجسٹرار سپریم کورٹ کو تمام ریکارڈ سمیت فوری طور پر طلب کر لیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ میں سپریم کورٹ کا جج ہوں جبکہ پانچ سال تک چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ بھی رہ چکا ہوں، ہم چاہتے ہیں شفافیت ہونی چاہیے لیکن اگر رجسٹرار کیس ایک بینچ سے دوسرے بینچ میں لگا دے تو شفافیت کیسے ہوگی۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے ایک رجسٹرار تو میرے جیسے جج سے بھی زیادہ طاقتور ہے، میں 2010 کے کیسز نہیں سن سکتا کیوں کہ کیسز رجسٹرار سماعت کے لیے مقرر کرتا ہے، کیا میں فون کرکے رجسٹرار کو یہ کہہ سکتا ہوں فلاں کیس فلاں بینچ میں لگا دیں۔ رجسٹرار سپریم کورٹ نے کہا کہ چیف جسٹس پاکستان صاحب کی منظوری سے ہی مقدمات سماعت کے لیے مقرر ہوتے ہیں جسٹس یحیی آفریدی نے ریمارکس دیے کہ سوال یہ ہے کہ بینچ میں جسٹس حسن رضوی صاحب تھے تو بینچ کیوں تبدیل ہوا، کیسز فکس کرنے کا کیا طریقہ کار ہے۔

سابق صدر سپریم کورٹ بار امان اللہ کنران نے کہا کہ لوگ پوچھ پوچھ کر تھک گئے ہیں لیکن ہمارے کیسز نہیں لگتے۔ وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو رجسٹرار سپریم کورٹ عشرت علی عدالت پیش ہوئے۔ بار بار عدالتی سوالات پوچھنے کے باوجود رجسٹرار سپریم کورٹ تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔ جسٹس قاضی فازعیسی نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس میں شفافیت نام کی کوی چیز نہیں ہے، 1999 کے مقدمات سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے، ہم 2022کی اپیلیں سن رہے ہیں کوی تو وضاحت ہونی چاہیے۔ جسٹس یحیی آفریدی نے ریمارکس دیے کہ رجسٹرار آفس میں شفافیت ہونی چاہیے، سپریم کورٹ رجسٹرار آفس جو بھی کام کرے وہ تحریری صورت میں ہونا چاہیے۔ جسٹس قاضی فازعیسی نے ریمارکس دیے کہ رجسٹرار سپریم کورٹ عشرت علی کو کچھ نہیں پتہ۔ انہوں نے ایڈیشنل رجسٹرار سے استفسار کیا کہ کیا آپ ڈی فیکٹو رجسٹرار کے طور پر کام کر رہے ہیں؟ جسٹس قاضی فازعیسی نے ریمارکس دیے کہ ہمیں بتائیں کہ پھر ہم کس کو بلائیں، کیا ہم سیکشن آفیسر کو اس معاملے پر بلائیں، ہمیں بتائیں کہ کیسز سے متعلق سپریم کورٹ کا کیا طریقہ کار ہے اور پرانے کیسز کیوں نہیں لگائے جا رہے-

کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی