i پاکستان

قائمہ کمیٹی مواصلات ، سیلاب سے نقصانات پر کام کیلئے کوئی خصوصی فنڈ فراہم نہیں کیے گئےتازترین

July 13, 2023

ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی برائے مواصلات میں بتایا گیا کہ سیلاب سے نقصانات پر کام کیلئے کوئی خصوصی فنڈ فراہم نہیں کیے گئے جس پر قائمہ کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں وزارت خزانہ اور وزارت منصوبہ بندی سمیت متعلقہ اداروں کو طلب کر لیا،سینیٹر کامل علی آغا نے ایم فور موٹرویز پر سروسز ایریا قائم نہ ہونے کامعاملہ اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ عوام سے ٹال ٹیکس تو وصول کیا جارہاہے مگر بدقسمتی کی بات ہے مگر ایک سال سے زائد گزرنے کے باوجود بھی ایم فور پر کوئی ایک بھی فیول اسٹیشن اور سروس ایریا نہیں ہے۔ جمعرات کو ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی برائے مواصلات کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر پرنس احمد عمر احمد زئی کے زیر صدارت پارلیمنٹ ہاس میں منعقد ہوا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں این ایچ اے اور نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹر ویز میں تقرریوں کیلئے ملک کے پسماندوہ اورخاص طور پر صوبہ بلوچستان کیلئے امیدواروں کیلئے عمر کی حد اور رولز کے مطابق عمر کی حد میں ریلیف،نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹر ویز کی ملک بھر کیلئے 1900 اسامیوں کی صوبہ وائز تفصیلات کے علاوہ صوبہ بلوچستان کے علاقہ بولان میں پنجرپل کی تعمیر کے حوالے سے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس کے آغاز میں چیئرمین کمیٹی سینیٹرپر نس احمد عمر احمد زئی نے کہا کہ ملک کے پسماندہ علاقوں اور خاص طور پر بلوچستان سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کو نوکریوں کے حوالے سے عمر کی حد میں ریلیف دینا چاہیے۔ ان علاقوں سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کو سہولیات نہ ہونے کے برابر ملتی ہیں۔ سیلاب و دیگر مسائل کی وجہ سے ان لوگوں کو خاصی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ صوبہ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا اور پسماندہ صوبہ ہے۔ترقیاتی کام نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ صوبہ قدرتی معدنیات کی دولت سے مالا مال ہے۔

اقتصادی راہداری کے منصوبوں میں صرف سٹرکیں بنی ہیں باقی سٹرکیں پرانی اور سیلابوں کی وجہ سے تباہی کا شکار ہو چکی ہیں۔ سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ پسماندہ علاقوں کی ترقی پر ہمیں خصوصی توجہ کرنی چاہیے اور اس قائمہ کمیٹی نے ہمیشہ پسماندہ علاقوں کے روڈ نیٹ ورک پر خصوصی توجہ دی ہے۔ کوشش کی جائے کہ جن علاقوں کی اسامیاں سامنے آئیں ان علاقوں کے امیدواروں کو ترجیح دینی چاہیے۔ آئی جی نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹر ویزنے قائمہ کمیٹی کو بھرتیوں کے لئے عمر کی حد اور رولز کے مطابق دیئے جانے والے ریلیف کے حوالے سے قائمہ کمیٹی کو تفصیل سے آگاہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ نان یونیفارم اور سویلین موٹر وے ملازمین کے گریڈ15 اور اس سے نیچے کے گریڈ کے ملازمین کیلئے کم سے کم عمر18 سال اور زیادہ سے زیادہ25 سال ہے۔ گریڈ16 کی کم سے کم 20 اور زیادہ سے زیادہ 28 سال عمرہے اور گریڈ 19 کیلئے کم سے کم32 اور زیادہ سے زیادہ40 سال ہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ عمر کی بالائی حد میں نان یونیفارم ملازمین کیلئے 5 سال کا ریلیف ہے۔اقلیتوں کیلئے 3 سال،قبائلی علاقہ جات، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان کیلئے 3 سال، سندھ دیہی اور بلوچستان کے گریڈ 15 اور نیچے کے گریڈ کیلئے 3 سال کی رعایت ہے۔ آرمڈ فورسز کے ریٹائرڈ افسران کیلئے 15 سال کی اور وہ سرکاری ملازمین جنہوں نے دو سال کی مسلسل نوکری کی ہو ان کو 10 سال کی رعایت ہے۔ معذور افراد کیلئے گریڈ 15 اور اس سے کم کیلئے 10 سال کی رعایت ہے جبکہ بیوہ اور فوت ہو جانے والے ملازمین کے بچوں کیلئے 5 سال کی رعایت ہے۔ پولیس افسران کیلئے عمر کی حد گریڈ14 کی کم سے کم 18 سال اور زیادہ سے زیادہ25 سال ہے۔ قائمہ کمیٹی کو نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹر ویز کی1900 اسامیوں کی صوبے کے لحاظ سے تفصیلات دی گئیں۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ساڑھے سات فیصد کوٹہ کے لحاظ سے 143 سیٹیں ہیں۔ پنجاب میں 50 فیصد کوٹے کے ساتھ966، سندھ دیہی11.4 فیصد کوٹے کے ساتھ 223، سندھ اربن 7.6 فیصد کوٹے کے ساتھ 146، صوبہ خیبر پختونخواہ 11.6 فیصد کوٹے کے ساتھ 222، صوبہ بلوچستان 6 فیصدکوٹے کے ساتھ 159، فاٹا 4 فیصد کوٹے کے ساتھ 63، گلگت بلتستان1 فیصد کوٹے کے ساتھ 21، اے جے کے 2 فیصد کوٹے کے ساتھ42، معذور افراد 2 فیصد کوٹے کے ساتھ 5 اسامیاں ہیں۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ یونیفارم 1750 اور نان یونیفارم240 اسامیاں ہیں۔ ممبر ایڈمن این ایچ اے نے بتایا کہ تقرریوں کیلئے عمر کے تعین کے حوالے سے این ایچ اے کی بھی یہی پالیسی ہے۔آئی جی نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹر ویز نے کمیٹی کو درپیش مسائل بارے بھی آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ ادارے نے ایک سمری ریکورمنٹ کے لئے بجھوائی ہے اس کی منظوری کا انتظار ہے۔ کمیٹی اس حوالے سے مدد کرے۔انہوں نے کہا کہ ور چوئل یونیورسٹی سے ادارے کی تقرریوں کو پراسس ہونا ہے۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ادارے کے ڈیلی الانس کے حوالے سے بھی ایک مسئلہ ہے جس کی منظوری وزیراعظم پاکستان نے دی تھی مگر مالی مشکلات کی وجہ سے ہمیں اجازت نہیں دی گئی ہم اپنے بجٹ سے یہ ادا کر دیں گے کمیٹی اس کے لے سپورٹ کرے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ایڈمن الانس بھی نہیں مل رہا جس کی وجہ سے دیگر محکموں کے افسران ڈیپوٹیشن پر بھی نہیں آتے اور اس محکمے میں آنے سے بھی کتراتے ہیں۔یہ الانس باقی متعلقہ اداروں کو مل رہے ہیں جن میں ایف سی اور اسلام آبا پولیس وغیرہ شامل ہیں اور ہمارے محکمے کے ملازمین کو شہید بھی تصور نہیں کیا جاتا ان کو ڈیتھ ان سروس تصور کیا جاتا ہے یہ تمام امتیازی سلوک ختم کرنے میں کمیٹی ہماری مدد کرے۔ قائمہ کمیٹی کو صوبہ بلوچستان کے علاقہ بولان میں پنچر پل کی تعمیر کے حوالے سے تفصیلی آگاہ کیا گیا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ یہ پل26 اگست 2022 کو سیلاب کی وجہ سے گر گیا تھا۔ 4ستمبر 2022 کو متبادل راستہ بنا دیا گیا تھا۔ این 65،سیلاب کی وجہ سے 30 فیصد خراب ہو چکی ہے۔ اس پل کی تعمیر پر 485 ملین روپے خرچ ہونگے۔ ٹینڈر ہو چکا ہے اب صرف ایوارڈ کرنا باقی ہے۔ اس منصوبے کیلئے اے ڈی بی کا قرضہ موجود ہے۔ اس سال اگست کے آخر میں اس منصوبے پر کام شروع ہو جائے گا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ پہلے پل کی لمبائی 90 میٹر تھی اب 100 میٹر ہوگی اور10 میٹر واٹر وے کو بھی بنایا جائے گااور مستقبل کیلئے ٹنل بھی بنائی جا رہی ہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ آئرش کاز وے 90 ملین روپے سے بنائی جا رہی ہے۔18 جون سے کام شروع ہے اور17 دسمبر تک مکمل ہو جائے گا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ پنجر پل پر ابھی تک 27 ملین روپے خرچ ہو چکے ہیں۔ کمیٹی کو بتایاگیا کہ اے ڈی بی نے 150 ملین ڈالر قرض دیا ہے جو 2022 کے سیلاب میں ہونے والے سٹرکوں کے نقصانا ت جن میں 32 پل بھی شامل ہیں پر خرچ کیا جائے گا۔

کمیٹی کو پنجر پل کے حوالے سے نئی الائنمنٹ روڈ جو 11 کلومیٹر پر مشتمل ہو گی بارے بھی آگاہ کیاگیا، بتایا گیاکہ پی سی ون بن گیا ہے ۔ ڈیرہ مراد جمالی پر بائی پاس بن رہا ہے۔ کمیٹی کویہ بھی بتایا گیا کہ بسیمہ خضدار روڈ جون2022 میں مکمل ہو چکا ہے۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر پرنس احمد عرم احمد زئی نے کہا کہ پنجر پل کو تقریبا اس سال ہو چکا ہے۔ انتہائی اہم جگہ جو صوبہ سندھ اور پنجاب کو بلوچستان سے ملتا ہے اس پر ایمرجنسی لگا کر کام کرنا چاہیے تھا۔ قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ این ایچ اے اپنے وسائل سے سیلاب کے دوران ہونے والے سٹرکوں کے نقصانات پر کام کر رہا ہے۔ سیلاب سے نقصانات پر کام کیلئے کوئی خصوصی فنڈ فراہم نہیں کیے گئے جس پر قائمہ کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں وزارت خزانہ اور وزارت منصوبہ بندی سمیت متعلقہ اداروں کو طلب کر لیا۔ سینیٹر کامل علی آغا نے ایم فور موٹرویز پر سروسز ایریا قائم نہ ہونے کامعاملہ اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ عوام سے ٹال ٹیکس تو وصول کیا جارہاہے مگر بدقسمتی کی بات ہے مگر ایک سال سے زائد گزرنے کے باوجود بھی ایم فور پر کوئی ایک بھی فیول اسٹیشن اور سروس ایریا نہیں ہے۔ جس پر قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ فیول اسٹیشن کے لئے کنڑیکٹ ایوارڈ ہو چکے ہیں۔ زمین کے کچھ مسائل ہیں جلد کام شروع ہو جائیں گے۔ قائمہ کمیٹی نے باقی ایجنڈ آئندہ اجلاس تک موخر کر دیا۔ قائمہ کمیٹی کے آج کے اجلاس میں سینیٹرز شمیم آفریدی، محمد اکرم، عابدہ محمد عظیم، کامل علی آغااور مولاناعبدالغفور حیدری کے علاوہ سینئر جوائنٹ سیکرٹری وزارت مواصلات، آئی جی نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹر ویز، ڈئی آئی جی نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹرویز اور این ایچ اے حکام نے شرکت کی۔

کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی