حکومتی اتحادی جماعتوں نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر عدالت عظمی کے بینچ کو متفقہ طور پر مسترد کرتے ہوئے فل کورٹ بنانے کا مطالبہ کردیا۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ پک اینڈ چوز کے ذریعے 8 رکنی بینچ بنایا گیا، عجلت میں مقدمہ فکس کیا گیا، ایک سال سے مطالبہ دہرایا جارہا ہے کہ فل کورٹ بٹھایا جائے، توقع رکھتے ہیں کہ آج یہ بینچ تحلیل کردیا جائے گا۔ قمر زمان کائرہ کا کہنا ہے کہ کیا پارلیمان کو اختیارات کے استعمال سے روکنا چاہتے ہیں؟، بینچ بناکر پارلیمان روکنے کی روایت بالکل درست نہیں، کوئی کمپرومائز نہیں ہوسکتا، اداروں کا تصادم ملک کو تباہی کی طرف لے کر جارہا ہے۔ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے حکومتی حکومتی اتحادی جماعتوں کے رہنماوں کے ہمراہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل سے متعلق سپریم کورٹ میں درخواست اور اس پر قائم عدالت عظمی کے 8 رکنی بینچ پر اسلام آباد میں پریس کانفرنس کی، جس میں قمر زمان کائرہ، کامران مرتضی، امین الحق، میاں افتخار حسین سمیت دیگر موجود تھے۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ حکمران اتحاد کے قائدین نے اس حوالے سے ایک اعلامیہ جاری کیا، پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کو صدر نے واپس کیا تھا، جوائنٹ سیشن میں بل کو مباحثے کے بعد پاس کیا گیا، صدر نے بل پر دستخط نہیں کئے اس لئے ایکٹ آف پارلیمںٹ نہیں بنا، اس بل پر ایک درخواست دائر ہوئی جس پر 8 رکنی بینچ بن گیا، پہلے کبھی بھی معاملات کو قانون سازی سے پہلے چیلنج نہیں کیا گیا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ عجلت میں یہ مقدمہ فکس کیا گیا، ایک سال سے مطالبہ دہرایا جارہا ہے کہ فل کورٹ بٹھایا جائے، پنجاب اسمبلی کے معاملے پر بھی فل کورٹ نہیں بنایا گیا، حالیہ الیکشن کے حوالے سے بھی لارجر بینچ بنا تھا، اس فیصلے کو بھی 3 رکنی بینچ نے سیکنڈ رانڈ میں فائنل کیا، اس طرح کے اقدامات الارمنگ ہیں، پک ایںڈ چوز کے ذریعے 8 رکنی بینچ بنایا گیا۔ وزیر قانون نے کہا کہ تمام روایات اس بات کے متقاضی ہیں کہ چیف جسٹس خود اس کی پیروی نہ کریں، امید کرتے ہیں کہ آج یہ بینچ تحلیل کردیا جائے گا، بار کونسلز نے یک زبان ہوکر کہا کہ بینچ کی تشکیل کو قبول نہیں کرتے یہ افسوسناک ہے، معاملات جس سمت میں جارہے ہیں، ایک ٹکرا کی سی صورتحال پیدا ہورہی ہے، ٹکرا کی صورتحال پارلیمان کی طرف سے نہیں، پارلیمان کو قانون سازی سے نہیں روکا جاسکتا۔
اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ تمام دوست یک زبان کہتے ہیں کہ عوام کا حق کسی کو نہیں دیں گے، حق اور ان کا تحفظ کرنا جانتے ہیں، بینچ تشکیل پر اتحادی متفق ہیں کہ اس کو مسترد کرتے ہیں، قانون سازی میں اداروں کی بیجا مداخلت پر بھی اصولی مقف پر کھڑے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ایک سپریم کورٹ چاہئے، ادارے میں تقسیم در تقسیم کا تاثر عیاں ہورہا ہے، ایسے معاملات میں سوموٹو لئے گئے جس کی قیمت قوم کو ادا کرنا پڑی، اپنی مرضی کا بینچ نہیں چاہتے، ہماری خواہش ہے کہ اجتماعی سوچ کو راستہ دیا جائے۔ پریس کانفرنس کے دوران پی پی پی رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا کہ کیا پارلیمان کو اختیارات کے استعمال سے روکنا چاہتے ہیں؟، کیا دنیا کے کسی ملک میں ایسا ہوا ہے، بینچ بناکر پارلیمان کو اختیار کے استعمال سے روکنے کی روایت بالکل درست نہیں کوئی کمپرومائز نہیں ہوسکتا، ماضی کی غلطیوں کو درست کرنے کیلئے آج ہی فل کورٹ کی طرف جایا جائے، اداروں کا تصادم ملک کو خوفناک سمت کی طرف لے کر جارہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ آج بھی کہہ رہے ہیں کہ بینچ بنانے کا طریقہ کار درست کیا جائے، ہم لڑائی نہیں لڑرہے ہم ایک پوزیشن پر ہیں، آج ڈھٹائی اور ضد کا مظاہرہ کیا جارہا ہے، تعصب کے تاثر کو چیف جسٹس کو توڑنا چاہئے، اگر ایسے ہی چلے گا تو یہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ سینیٹر کامران مرتضی نے کہا کہ بینچ کی تشکیل کو دیکھا تو حیرانگی اور ممبران پر تکلیف ہوئی، قانون ابھی نہیں بنا اور قبل از وقت اس کو چیلنج اور فکس کردیا گیا، اس سے بھی زیادہ اہم معاملات عدالت میں پینڈنگ میں ہیں، سپریم کورٹ کے مجموعی ججز کی تعداد 15 ہے، 8 بٹھادیئے جائیں تو باقی کہاں جائیں گے، بڑے بینچز کی رائے نہیں سنی گئی۔ ان کا کہنا ہے کہ جس قانون کا جائزہ لینے جارہے ہیں اس کے مواد پر کسی کو اعتراض نہیں، سپریم کورٹ میں دوسری پارٹی کا مقف ہے کہ جوڈیشل ترامیم ہونی چاہئیں، پارلیمان میں آنیوالے کسی اچھے کام کا ایسے تیا پانچہ کرنا اچھی بات نہیں۔ اے این پی رہنما میاں افتخار حسین نے مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ سپریم کورٹ کو فل کورٹ کی تشکیل پر کیا ڈر ہے، پاکستان اس وقت مشکلات سے گزر رہا ہے، کیا پی ٹی آئی حکومت کو آئینی طریقے سے ہٹانا ہمارا جرم ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ آئین بنانیوالے بے اختیار اور تشریح کرنے والے بااختیار ہوجائیں، کیا یہ درست ہے؟، عدلیہ سے 8 رکنی بینچ کی تشکیل پر نظرثانی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس موقع پر وفاقی وزیر امین الحق نے کہا کہ اتحادی جماعتیں آئین اور قانون کے حوالے سے اظہار یکجہتی کررہی ہیں، آئین پارلیمنٹ سے پاس ہوا، ہماری خواہش ہے فل کورٹ بنایا جائے، پارلیںٹ سے قانون سازی روکنے کی اجازت کسی کو نہیں دی جاسکتی، ترازو کا پلڑہ برابر ہونا چاہئے، انصاف ہو اور انصاف ہوتا نظر بھی آنا چاہئے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی