عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس کی سماعت میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد کے جج ظفر اقبال نے کہا ہے کہ عمران خان اب بھی سرینڈر کردیں تو میں آئی جی کو آرڈر کردیتاہوں کہ ان کوگرفتار نہ کریں۔ جمعرات کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں توشہ خانہ کیس کی سماعت ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال کی عدالت سماعت شروع ہوئی تو عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے اسلام آباد ہائی کورٹ کا وارنٹ برقرار رکھنے کا فیصلہ پڑھ کر سنایا۔ جج کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ اب تک عدالتی طریقہ کار سے سیشن عدالت کو نہیں ملا، آپ کو کیا لگتا ہے کیس قابل سماعت ہونے سے متعلق الیکشن کمیشن کو نوٹس دینا چاہیے؟ مسئلہ ایک سیکنڈ میں حل ہو سکتا ہے، عمران خان کہاں ہیں؟ عمران خان زاتی حیثیت میں عدالت میں کہاں پیش ہوئے ہیں؟ انڈرٹیکنگ کا کانسیپٹ کہاں پر ہے؟ وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ کیا ضروری ہیکہ عمران خان کو گرفتار کرکے ہی عدالت لائیں؟ معزز جج نے ریمارکس دیے کہ ہم چاہتے ہیں کہ عمران خان عدالت آجائیں، وہ کیوں نہیں آرہے؟ وجہ کیا ہے؟ قانون کے مطابق عمران خان نے پولیس کو اسسٹ کرنا ہے رزسٹ نہیں کرنا، عمران خان نے رزسٹ کر کے سین کو بنایا، اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے میں یہ بھی لکھا ہے کہ غیرقانونی عمل سے آرڈر اثر انداز نہیں ہونا چاہیے، اگر قابل ضمانت وارنٹ ہوتے تو مسئلہ ہی کچھ نہ ہوتا، وارنٹ ناقابل ضمانت ہیں، وارنٹ گرفتاری عمران خان کی ذاتی حیثیت میں پیشی کے لیے ہیں۔
وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ عمران خان تو خود کہہ رہے ہیں کہ میں عدالت آنا چاہتا ہوں، عمران خان استثنی نہیں مانگ رہے، عدالت آنا چاہتے ہیں، کیا اس وقت ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کے فیصلے کی ضرورت ہے؟ آپ کے پاس دو آپشنز موجود ہیں، درخواست گزار آنا چاہتے ہیں، پہلا آپشن آپ انڈرٹیکنگ کی درخواست منظورکرکے ناقابل ضمانت وارنٹ منسوخ کردیں، دوسرا آپشن آپ ضمانت لے کر قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کریں، عمران خان انڈرٹیکنگ دینا چاہتے ہیں کہ 18 مارچ کو سیشن عدالت میں پیش ہوں گے۔ عمران خان کے وکلا نے وارنٹ گرفتاری معطل کرنے کی استدعا کردی۔ جج نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کو نوٹس بھی دیتے ہیں، اس پر خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ آپ نوٹس دے کر الیکشن کمیشن کو آج ہی بلا لیں۔ جج نے سوال کیا کہ لاہور زمان پارک میں صورتحال خراب کیوں ہے؟ پاکستان کا ہی نہیں دنیا کا سب سے مہنگا وارنٹ عمران خان کا بن گیا ہے، حکومت کے کروڑوں روپے اس وارنٹ پر لگے ہیں-
قانون کے مطابق ناقابل ضمانت وارنٹ پاکستان کے کسی بھی شہر میں قابل اطلاق ہو سکتاہے، قانون کے مطابق عمران خان کو سیدھا عدالت لانا تھا، عمران خان کو عدالتی پیشی پر ہراساں کرنا ممکن ہی نہیں ہے، غریب ملک ہے، کروڑوں روپے وارنٹ پر خرچہ ہوا جس کی ضرورت نہیں تھی، عمران خان اب بھی سرینڈر کردیں تو میں آئی جی کو آرڈر کر دیتاہوں کہ ان کوگرفتار نہ کریں۔ عدالت کا کہنا تھا کہ قانون کے مطابق وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے، مزاحمت کیوں ہوئی؟ عوام کے پیسے ہیں، زیادہ سے زیادہ پر امن احتجاج کرلیتے، فوجداری کارروائی میں عموما ملزمان ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش ہوتے ہیں، ملزمان عدالت کے سامنے پیش ہوتیہیں اور وارنٹ ختم ہوجاتے ہیں، ایسا نہیں کہ وارنٹ کی تاریخ 18 مارچ ہے اور پولیس ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائے۔ وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ انڈرٹیکنگ کے بعد وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کی ضرورت نہیں۔ جج کا کہنا تھا کہ بارش ہے، سیکرٹریٹ پولیس کو الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کرنیکا کہہ دیتا ہوں۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی