انتخابات سے متعلق از خود نوٹس میں 2 فاضل جج صاحبان نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا ہے کہ انتخابات سے متعلق از خود نوٹس جلدبازی میں لیا گیا،ازخود نوٹس لینے کی کوئی وجہ نظرنہیں آتی، ازخود نوٹس کا اختیار سپریم کورٹ کو استعمال نہیں کرنا چاہیے تھا،ہائی کورٹس میں اسی طرح کا کیس زیر سماعت ہے، معاملہ ہائی کورٹس میں تھا تو سپریم کورٹ نوٹس نہیں لے سکتی تھی سپریم کورٹ ایک سب سے بڑی کورٹ ہے اس کو ان معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات سے متعلق از خود نوٹس میں 2 فاضل جج صاحبان نے فیصلے سے اختلاف کیا ہے۔ سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات سے متعلق از خود نوٹس کے فیصلے میں کہا ہے کہ پنجاب اور خیبر پختون خوا اسمبلیوں کے انتخابات 90 روز میں ہوں گے۔ سپریم کورٹ نے 3 - 2 سے فیصلہ دیا ہے، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے فیصلے سے اختلاف کیا ہے۔ عدالت عظمی کی جانب سے جاری فیصلے میں دونوں فاضل جج صاحبان کے اختلافی نوٹ کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ فیصلے میں شامل مشترکہ اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ ازخود نوٹس لینے کی کوئی وجہ نظرنہیں آتی، ازخود نوٹس کا اختیار سپریم کورٹ کو استعمال نہیں کرنا چاہیے تھا، از خود نوٹس جلدبازی میں لیا گیا۔ اختلافی نوٹ میں لکھا گیا ہے کہ ظہور الہی اور بے نظیر بھٹو کیس کے فیصلے اس بارے میں واضح ہے کہ جب ایک درخواست موجود ہو تو پھر اس کیس میں جلدی نہ ہو لیکن پہلے سے موجود درخواستوں کو جلدی سننے کی کوشش کی گئی۔ ہائی کورٹس میں اسی طرح کا کیس زیر سماعت ہے، معاملہ ہائی کورٹس میں تھا تو سپریم کورٹ نوٹس نہیں لے سکتی تھی سپریم کورٹ ایک سب سے بڑی کورٹ ہے اس کو ان معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے، 90روز میں انتخابات کرانے کی درخواستیں مسترد کی جاتی ہیں۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی