پاکستان تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل اسد عمر نے کہاہے کہ انتخابات کرانے کیلئے کسی اور ادارے سے اپیل نہیں کریں گے،آئین کا دفاع آئینی اداروں نے کرنا ہے ، یہ عدلیہ نے اور صدر پاکستان نے کرنا ہے ، پاکستان کے عوام نے کرنا ہے ،ادھراُدھر کی سیاست اب ختم ہونی چاہیے ،اب نظریہ ضرورت کو دفن کرنے کا وقت آ گیا ہے ،وفاق ، پنجاب اور خیبر پختوانخواہ میں پی ڈی ایم کی حکومتیں ہیں ہم اس کے باوجود انتخابات مانگ رہے ہیں،الیکشن کمیشن ایک سیاسی فریق ہے ہم اس کے باوجود انتخابات مانگ رہے ہیں،صدر پاکستان سب سے بڑے آئینی عہدے پر بیٹھے ہیں اورآئین کا دفاع کرنا ان کی ذمہ داری ہے ، اگر گورنر اور الیکشن کمیشن تاریخ نہیں دیتے تو صدر کو تاریخ دینے کے لئے فیصلہ کرنا ہوگا ، گورنر پنجاب کے خلاف کارروائی کے لئے صدر مملکت کو خط لکھ رہے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے سپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان ، سیکرٹری اطلاعات پی ٹی آئی پنجاب عندلیب عباسی ، محمد مدنی اور دیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا ۔اسد عمر نے کہا کہ میں نے الیکشن کمیشن سے کوئی معافی نہیں مانگی اور میں وکلاء سے کہا ہے کہ جمع کرائے گئے جواب میں اگر کوئی اس طرح کا ابہام پیدا ہو رہا ہے تو اسے واپس لے کر ترمیم شدہ جواب جمع کرایا جائے ۔حنیف عباسی کیس میں عدالت واضح کہہ چکی ہے الیکشن کمیشن عدالت نہیں ہے ، توہین عدالت کا اختیار صرف سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس کے پاس ہے ، اگر الیکشن کمیشن عدالت ہے بھی تواسے توہین عدالت کا کوئی اختیار حاصل نہیں ہے ۔
انہوںنے کہا کہ رجیم چینچ آپریشن اور سازش کے ذریعے ملک میں سیاسی بحران پیدا کیا گیا اس کی وجہ سے معاشی بحران پیدا ہوا ، ان کی آپس کی لڑائی کی وجہ سے معاشی حالات خراب سے خراب تر ہوتے گئے ۔ مفتاح اسماعیل ایک فیصلہ کرتے تھے اور اسحاق ڈار باہر بیٹھ کر ان کی ٹانگیں کھینچنے کی کوشش کرتے تھے اوریہ ریکارڈ پر ہے۔ اسحاق ڈار آ گئے تو انہوں نے کہا کہ میرا آئی ایم ایف سے بات کرنے کا تجربہ ہے میں ، مفتاح اسماعیل ٹھیک بات نہیں کر رہا تھا ، میں آئی ایم ایف کو جانتا ہوں میں سب ٹھیک کرا دوں گازبردست معاہدہ کریں گے ، مفتاح اسماعیل تو شرائط ماننے جارہا تھا لیکن میں نہیں مانوں گا ۔انہوں نے کہاکہ کریڈٹ ریٹنگ نکالنے والی ایجنسی یہ بتاتی ہیں کہ کسی ملک کے پاس کتنی صلاحیت ہے کہ وہ بیرونی قرضے واپس کر سکے گی لیکن آج کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیز نے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ گرانی شروع کر دی ہے جس کا مطلب ہے کہ پاکستان کے پاس بیرونی قرضوں کی واپسی کی صلاحیت کم ہونا شروع ہو گئی ۔ جب اسحاق ڈار کو بتایا گیا تو انہوںنے کہا کہ انہیں غلط فہمی ہوئی ہے اورکہا کہ میں اپنی زبان میں بات کروں گا۔فنچ دنیا کی تیسری بڑی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی ہے جس نے پاکستان کی قرضہ واپس کرنے کی صلاحیت کو دو سٹیپ نیچے گرایا ہے ۔
انہوںنے کہا کہ امپورٹڈ حکومت خود فیصلہ نہیں کر پائی اور آئی ایم ایف سے بات کرنے میں تاخیر کی تاخیر کی ۔ حالانکہ یہ ہمیں کہتے تھے کہ ہم نے دیر سے معاہدہ کیا تھا۔عمران خان کی بات میں سچائی تھی اوردنیا عمران خان کی بات مانتی تھی ، ہمیںدو ارب ڈالر متحدہ عرب امارات سے ملے ،تین ارب ڈالر سعودی عرب نے دئیے اور تین ارب ڈالر کی کریڈٹ فنانس کی سہولت ملی ،تین ارب ڈالر چین سے ملا ، ہمارے دور میں کوئی بڑا بحران پیدا نہیں ہوا ،آج ڈالر سو روپیہ تک گر گیا ہے ، ہمارے دور میں مہنگائی سنگل ڈیجٹ میں رہی جو آج چونتیس فیصد پر پہنچی ہوئی ہے ۔ معاملات ہمارے کنٹرول میں تھے اس لئے ہم آئی ایم ایف سے مضبوط بنیادوں پر مذاکرات کر رہے تھے اورآخر کار معاہدہ ہوگا اور پاکستان میں کوئی بحران نظر نہیں آیا ۔ موجودہ حکمران ٹولے نے شدید بحران پیدا کیا اورپاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہے کہ ہمارے زر مبادلہ کے ذخائر اس سطح پر ہیں جو پہلے کبھی نہیں ہوئے ۔ہزاروں کاروبار بند ہونے کی وجہ سے لاکھوں لوگ بیروزگار ہونا شروع ہو گئے ۔ یہ سب کرنے کے باوجود آج ان کو بڑی جلدی ہے کہ عوام پر ٹیکسز کا مزید بوجھ لادھ دیا جائے ۔یہ صدر کے پاس آئے کہ اور آرڈیننس پیش کر دیں کیونکہ یہ عوام سے بھاگ رہے ہیں تحریک انصاف سے بھاگ رہے ہیں ، یہ اتنے خوفزدہ ہیں کہ اپنے ممبران قومی اسمبلی کے سامنے جانے کو تیار نہیں ۔آئین میں واضح لکھا ہوا ہے کہ جب منی بل پیش کریں گے نئے ٹیکس لگائے جارہے ہوں تو اسے قومی اسمبلی میں پیش کیا جاتا ہے اس کے ساتھ سینیٹ میں بھیجا جائے گا اور وہاں کم از کم پندرہ روز بحث ہو گی اور اس کی سفارشات کو دیکھنے کے بعد قومی اسمبلی میں ووٹنگ ہو سکتی ہے اور فیصلہ ہو سکتا ہے
،انہوںنے سارے پروسیجر کو پس پشت ڈالتے ہوئے سیدھا آرڈیننس لے کر آگئے ۔ان کی کوشش تھی کہ عوام جسے انہوں نے پہلے ہی تاریخی مہنگائی پر ڈبویا ہوا ہے صدارتی آرڈیننس کے کرا کے اس کا الزام تحریک انصاف کو دے لیں گے کہ صدر کا تعلق تحریک انصاف سے ہے ۔صدر عارف علوی کا تحریک انصاف سے تعلق ہے لیکن اس وقت وہ ایک آئینی عہدے پر بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کا کسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں۔انہوںنے کہا کہ آئی ایم ایف سے معاہدے میں تاخیر انہوںنے کی غلط فیصلے انہوںنے کئے اور اب ان کی کوشش ہے کہ آئینی طریق کار سے فرار حاصل کرکے آرڈیننس کے ذریعے عوام پر مزید بوجھ ڈال دیا جائے ۔ صدر مملکت نے بالکل ٹھیک فیصلہ کیا ہے اور ان کو ایڈوائس دی ہے کہ اسے اسمبلی کے اندر پیش کریں ۔ انہوںنے کہا کہ پاکستان کے اندر جو سازش کے تحت حکومت بدلی گئی وہ بے نقاب ہو گئی ،پاکستان کے عوام ان کے کے خلاف کھڑ ے ہو گئے ہیں ۔انہوںنے کہا کہ تحریک انصاف کے آئین میں رہتے ہوئے اپنی اسمبلیاں تحلیل کیں ۔ آج اس بات کو کئی روز گزر چکے ہیں لیکن صدر کی جانب سے تاریخ نہیں دی گئی جس سے سیدھا سیدھا آئین سے انحراف کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ وزارت خزانہ ہر مہینے وفاقی حکومت کے ایک ہزار ارب روپے کے اخراجات کے پیسے دیتی ہے پورے سال یہ بارہ ہزار ارب روپے اخراجات اٹھاتی ہے ، اخراجات اٹھانے کے لئے تو بارہ ہزار ارب روپے ہیں لیکن الیکشن کرانے کے لئے ساٹھ ارب روپے نہیں ہے ۔یہ فیصلہ کر بیٹھے ہیں کیونکہ یہ عمران خان کا سیاسی مقابلہ نہیں کر سکتے اگر آئین بھی توڑنا پڑے توڑ دو لیکن انتخابات سے بھاگ جائو ۔
اس وقت یہ عدلیہ پر حملہ آور ہیں کیونکہ یہ ان کا یہ پرانا کام ہے ، یہ پہلے بھی سپریم کورٹ پر حملہ کر چکے ہیں ،جج خریدنا ،فون پر فیصلے کرانے ان کی عادت ہے ۔ اب ان کو یہ خوف آیا ہوا ہے کہ عدلیہ ان کے ساتھ آئین توڑنے میں شریک ہونے کو تیار نہیں تو انہوںنے عدلیہ کے اوپر منظم مہم شروع کر دی ہے اوران پردبائو ڈالنے کی کوسش کی جارہی ہے۔ان شا اللہ آئین بھی بر قرار رہے گا پاکستان میں جمہوریت بھی قائم رہے گی ، اب ملک میں ایسی جمہوریت ہونے جارہی ہے جس میں فیصلہ ساز صرف اور صرف پاکستان کے عوام ہوں گے اور بند کمروں کی سازشیں مستقبل کی فیصلے نہیں کریں گی ، یہ جتنی مرضی کوششیں کرلیں انہیں بھاگنے نہیں دیا جائے گا اور پہلے بھی کہا ہے کہ انہیں گھسیٹ کر بھی بیلٹ باکس کی طرف لے کر جانا پڑے تو لے کر جائیں گے ۔ اسد عمر نے کہا کہ ہائیکورٹ نے جمعہ کے روز فیصلہ دیا اور اس میں واضح کہا گیا کہ فوری انتخابات کی تاریخ دی جائے ۔ عدالت کے فیصلے کو کئی روز گزرنے کے باوجود یہ فیصلے پر عمل نہیں کر رہے اورآئین ٹوٹنے کی بات ہو رہی ہے، اب تو گورنر اور الیکشن کمیشن میں مشاورت بھی مکمل ہو گئی اب کس چیز کا انتظار ہو رہا ہے ۔ چیف الیکشن کمشنر بہت بڑی غلطی کر رہے ہیں آپ چاہے کسی کے کہنے پر کر رہے ہیں یا خود بھی کر رہے ہیں آپ آئین سے انحراف کر کے پچھتائیں گے، یہ غلطی نہ کرنا ، لوگ کرسیوں پر بیٹھتے ہیں یہ وقت گزر جاتا ہے ، اگر آپ نے آئین سے انحراف کیا آپ نے کبھی نہ کبھی قانون کی گرفت کے اندر آنا ہے ،جمہوریت کو خطرے میںنہ ڈالیں آئین کو توڑنے کی سازش میں شریک نہ بنیں اور فوری تاریخ کا اعلان کریں ۔
انہوںنے اسحاق ڈار اور صدر مملکت کی ملاقات کے حوالے سے کہا کہ وہ انتخابات کی تاریخ کی تجویز لے کر نہیں آئے تھے بلکہ وہ آردیننس پاس کرانے آئے تھے اور صدر نے ایڈوائس دی ہے آپ آئینی طریق کار کو فالو کریں ، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بحث ہو اور قوم کو پتہ چلے آپ کیوں ان پر بوجھ ڈالنے جارہے ہیں ،آپ کیوں مزید مہنگائی کرنے جارہے ہیں ، کیونکہ آپ پہلے ہی تین گنا مہنگائی کر چکے ہیں ۔انہوںنے کہا کہ الیکشن ایکٹ 2017کے تحت صدر انتخابات کی تاریخ دے سکتے ہیںاور ہمیں امید ہے کہ صدر جو ملک کے سب سے بڑے آئینی عہدے پر براجمان ہیں وہ آئین کی پامالی ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے ۔گورنر کے خلاف اقدام کے لئے سپیکر خط لکھ رہے ہیں اور یہ صدر مملکت کی صوابدید ہے وہ اس پر کیا اقدام لیتے ہیں، صدر پاکستان سب سے بڑے آئینی عہدے پر بیٹھے ہیں اورآئین کا دفاع کرنا ان کی ذمہ داری ہے ، اگر گورنر اور الیکشن کمیشن تاریخ نہیں دیتے تو صدر کو تاریخ دینے کے لئے فیصلہ کرنا ہوگا ۔انہوںنے کہاکہ اس وقت ملک میں جان بوجھ کر بحران پیدا کرینے کی کوشش کی جارہی ہے ، انہیں عمران خان کا سامنا کرتے ہوئے سیاسی موت نظر آرہی ہے اس لئے انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ آئین توڑنے کی ضرورت بھی پڑے تو توڑ دیا جائے ، آئین ان کی نظر میں کوئی معنی نہیں رکھتا۔کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ آج پاکستان کا آئین خطرے میں ہے جمہوریت خطرے میں ہے لیکن ہم ان کو کامیا ب نہیں ہونے دیں گے۔
انہوںنے ہم پہلے بھی عوام کی وجہ سے اقتدار میں آئے تھے اورآئندہ بھی انہی کے ذریعے آئیں گے ، ہم کسی اور ادارے سے کوئی اپیل نہیں کریں گے،آئین کا دفاع آئینی اداروں نے کرنا ہے ، یہ عدلیہ اور نے صدر پاکستان نے کرنا ہے ، پاکستان کے عوام نے کرنا ہے ۔انہوںنے پی ڈی ایم سے بات کر بات چیت کے حوالے سے کہا کہ جو آئین توڑنے کی بات کر رہے ہیں ان کے ساتھ بیٹھ کر بات کریں ، ان کے ساتھ بیٹھ کر آئین کے دفاع کی بات کریں ،عوام آئین کا دفاع کریں گے عدلیہ کرے گی ، آئینی ادارے کریں گے ادھراُدھر کی سیاست اب ختم ہونی چاہیے ،اب نظریہ ضرورت کو دفن کرنے کا وقت آ گیا ہے ۔اس سوا ل کہ قومی حکومت بنانے کی بھی باتیں ہو رہی ہے کا جواب دیتے ہوئے اسد عمر نے کہا کہ یہ بتائیںقومی حکومت وہ ہوتی ہے جس کو کروڑوں پاکستانی ووٹ ڈال کر منتخب کریں یا بند کمرے میں بیٹھ کر پانچ لوگ فیصلہ کریں کس کو حکومت میں آنا وہ قومی حکومت ہوتی ہے ، بتایا جائے اس میں سے کون سی قومی حکومت ہوتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہماری ہمدردیاں کیپٹن (ر) صفدر کے ساتھ ہیں ، اللہ تعالیٰ ان کا گھر سلامت رکھے۔انہوںنے کہا کہ وفاق ، پنجاب میں اور خیبر پختوانخواہ میں پی ڈی ایم کی حکومتیں ہیں ہم اس کے باوجود انتخابات مانگ رہے ہیں،الیکشن کمیشن ایک غیر جانبدارریاستی ادارہ نہیں بلکہ ایک سیاسی فریق ہے اس کے باوجود ہم انتخابات مانگ رہے ہیں۔
سپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان نے کہا کہ میںنے پہلے بھی گورنر کو خط لکھا تھاکہ آپ آئین و قانون کی اپنی کے مطابق مرضی تشریح نہ کریں ،قانون اور آئین پابند کرتا ہے کہ جس دن وزیر اعلیٰ نے اسمبلی تحلیل کے لئے لکھا ان کا فرض بنتا تھا نگران حکومت سے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرتے ۔ صوبے میں تو نگران حکومت کے نام پر بھی مسلم لیگ (ن) کی حکومت بنا دی گئی اس کے نگران وزیربنا دئیے گئے ، نگران حکومتیں اس طرح کام کرتی ہیں ،یہ ہر دوسرا کام کر رہی ہے لیکن وہ کام نہیں کر رہی جو آئین کے تحت اس نے کرنا ہے ۔ وفاق میں بھی مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے اور صوبے میں بھی مسلم لیگ (ن) ہے ، عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے نگران حکومت والے الفاظ ادا نہ کریں ۔ انہوں نے کہا کہ گورنر کو خط لکھ کر واضح کہا ہے کہ آئین کی مرضی کی تشریح نہ کریں اورسنجیدگی سے لیں اورتاریخ دیں ۔ ہائیکورٹ کے فیصلے میں فوری کا لفظ لکھا ہے کہ تاریخ کا اعلان کریں ۔سبطین خان نے بتایا کہ صدر مملکت کو خط لکھنے لگے ہیں کہ گورنر کے خلاف ایکشن لیں کیونکہ وہ آئین اور قانون کی پیروی نہیں کر رہے۔
میٹنگ میٹنگ کھیلنا چھور دیں اور لوگوں کو ان کا حق دیں ۔انہوں نے کہا کہ یہ باتیں ہو رہی ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کا گراف نیچے ہیں اس لئے حکومت کو طوالت دینا چاہتے ہیں، سوال یہ ہے کہ گراف ان کا نیچے ہے اس میں عوام کو کیو ں تکلیف دے رہے ہیں، اگر تین سال ان کا گراف اوپر نہ جائے تو کیا آئین اور ایک طرف رکھ دیں گے ۔ وقت گزر جاتا ہے لیکن تاریخ لکھی جاتی ہے آج تاریخ آپ کو دیکھ رہی ہے ۔ سپیکر قومی اسمبلی بھی بھاگتے پھر رہے ہیں ،کل آپ کا تاریخ میں نام آئے گا چاہے وہ اچھے الفاظ میں آئے یا برے الفاظ میں آئے ، ایسے الفاظ میں نہیں آنا چاہیے جس سے آپ کو خود بھی شرمندگی ہو گی ۔ انہوںنے کہا کہ آپ آئین و قانون کو خلاف ورزی نہیں کر سکتے اس کے اندر رہنا ہے ،ملک کی بقاء آئین میںہے ،آئین کو ایک طرف رکھ کر فیصلے درست اقدام نہیں۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی