وفاقی دارالحکومت کے ایف نائن پارک میں اجتماعی زیادتی کے ملزمان کی مبینہ مقابلے میں ہلاکت پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایس ایچ او کو ریکارڈ سمیت طلب کر لیا۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ہلاک شدگان کے لواحقین کی جانب سے جوڈیشل انکوائری کی درخواست پر سماعت کی، اس موقع پر لواحقین کی جانب سے ایڈووکیٹ قاضی عادل عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ مجسٹریٹ کے پاس گئے، اگر ہم تھوڑے قاعدے قانون کو فالو کر لیں تو اچھا ہے ناں، وکیل نے سوال کیا ہم ڈیڈ باڈی کے حصول کے لیے کس کو درخواست دیں؟، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ مجھے بتائیں کہ ہائیکورٹ کے پاس جوڈیشل کمیشن بنانے کا کونسا اختیار ہے؟، متعلقہ ایس ایچ او کو بلا کر اصل حقائق معلوم کر لیتے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اصل داد رسی کوئی بھی نہیں چاہ رہا، کیا آپ نے انہیں مشورہ دیا کہ مجسٹریٹ کے پاس جائیں؟ جب میں بطور وکیل پریکٹس کررہا تھا تو تحصیلدار سے ہائیکورٹ تک خود ہی جاتا تھا، مجھے پورے سسٹم کا اس لیے پتا ہوتا ہے کیوں کہ میں نے فیلڈ میں مار کھائی ہوئی ہے، معذرت کے ساتھ وکلا اپنے کلائنٹ کو بھی اچھا مشورہ نہیں دیتے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بلیک کوٹ کی اہمیت آج بھی ہے، یہ مثبت اور منفی دونوں اطراف سے کہہ رہا ہوں، ایک کالے کوٹ والے کا ایس ایچ او کے پاس جانا اور شہری کا جانا مختلف ہے، ہم غلطیاں بھی وہیں کرتے ہیں جہاں ہم شارٹ کٹس لیتے ہیں، آپ تھانے تو جائیں، مجسٹریٹ کے پاس تو جائیں، تھانے اور مجسٹریٹ سے ریلیف نہ ملے تو ہائیکورٹ آجائیں۔ بعد ازاں عدالت نے ایس ایچ او تھانہ گولڑہ کو اگلی تاریخ پر ریکارڈ سمیت طلب کر لیا۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی