i پاکستان

ایران اور پاکستان سکیورٹی سرحد کو اقتصادی سرحد میں بدلیں، سینیئر ایرانی سفارتکارتازترین

August 06, 2025

ایرانی وزارت خارجہ کے سینیئر اہلکار حسن نوریان نے کہا ہے کہ ایرانی اور پاکستانی حکام سمجھتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان 900 کلومیٹر طویل سرحد کو سکیورٹی بارڈر سے اقتصادی بارڈر میں تبدیل کیا جانا چاہیے ۔میڈیارپورٹ کے مطابق حسن نوریان نییہ بات صدر مسعود پزشکیان کے دورہ پاکستان کے نتاظر میں کہی۔ان کا کہنا تھا کہ دنیا جانتی ہے کہ ایران وہ پہلا ملک ہے جس نے 1947 میں پاکستان کو سب سے پہلے تسلیم کیا اور کراچی جو کہ اس وقت دارالحکومت تھا وہاں اپنا سفارتخانہ کھولا تھا۔ اسی طرح سرکاری طور پر پاکستان نے 1979 میں سب سے پہلے انقلاب ایران کی فتح کو تسلیم کیا تھا۔حسن نوریان نے کہا کہ پاکستان نہ صرف اچھا پڑوسی ہے بلکہ ایک اچھا رشتہ دار بھی ہے اور ایرانی قوم اس اہم پڑوسی کی شکرگزار ہے۔دونوں ملکوں کے عوام ثقافت، زبان، تاریخ اور مذہبی رشتوں سے جڑے ہیں اور تاریخ گواہ ہے کہ یہ کڑے وقت میں ایک دوسرے کا ساتھ دیتے رہے ہیں۔کراچی میں ایک عرصہ قونصل جنرل کی خدمات انجام دینے والے حسن نوریان نے کہا کہ ایک جیسی ثقافت اس نوعیت کی ہے کہ ان دونوں ملکوں کے شہری ایک دوسرے کے ملک جائیں تو انہیں اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا۔تہران میں شاہراہ محمد علی جناح اور پاکستان اسٹریٹ موجود ہے۔ اسی طرح پاکستان کے بڑے شہروں بشمول کراچی میں ایران ایونیو اور ایرانی شاعروں فردوسی، سعدی، حافظ ،خیام اور دیگر کے ناموں سے سڑکیں موسوم ہیں۔حسن نوریان نے کہا کہ اسلام آباد نے جس طرح 2 اور 3 اگست کو صدر ایران صدر مسعود پزشکیان اور ان کے وفد کا خیر مقدم کیا وہ قابل ذکر ہے۔

یہ صدرارتی الیکشن جیتنے کے بعد مسعود پزشکیان کا پہلا دورہ پاکستان تھا۔ڈاکٹر پزشکیان نے اپنے دورے کا آغاز لاہور سے کیا تھا جہاں سابق وزیراعظم میاں نوازشریف اور وزیراعلی پنجاب مریم نواز نے ان کا استقبال کیا تھا۔ ڈاکٹر پزشکیان علامہ اقبال کے مزار پر گئے اور فاتحہ خوانی کی۔حسن نوریان کے مطابق کہا جاتا ہے کہ علامہ اقبال کے 8 ہزار سے زائد شعروں جو کہ ان کے مجموعی کلام کا 70 فیصد ہیں، وہ فارسی میں ہیں۔ایران کے صدر نے اسلام آباد میں وزیراعظم ، صدر، وزیر خارجہ، فیلڈ مارشل، سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اسپیکرز اور بزنس کمیونٹی سیملاقات کی تھی۔ وزارت خارجہ کے سینیئر اہلکار کے مطابق یہ دورہ ایران کی پڑوسیوں کو اولیت دینے کی پالیسی کو عملی جامہ پہنانے کا مظہر تھا۔حسن نوریان نے کہا کہ پاک ایران تجارت کا موجودہ حجم 3 ارب ڈالر ہے۔ حالیہ دورے میں تعاون کے 12 معاہدوں پر دستخط کیے گئے۔ یہ معاہدے مواصلات، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، سیاحت اور آزاد تجارت سے متعلق ہیں۔ ان پر عمل کیا گیا تو یہ دوطرفہ تعلقات اور تجارت کو کئی گنا بڑھا سکتے ہیں۔صدر پزشکیان سے پہلے اپریل سن 2024 میں صدر ابراہیم رئیسی نے پاکستان کا 3 روزہ دورہ کیا تھا جس میں وہ اسلام آباد کے ساتھ ساتھ لاہور اور کراچی بھی گئے تھے جہاں ان کا عوام اور حکام نے پرتپاک استقبال کیا تھا۔

صدر آیت اللہ ابراہیم رئیسی اور ان کے ساتھیوں کی ہیلی کاپٹر حادثے میں شہادت پر وزیراعظم شہباز شریف اور دیگر حکام نے تہران جاکر تدفین میں شرکت کی اور انہیں خراج عقیدت پیش کیا تھا۔ اس سال مئی میں وزیراعظم شہباز شریف تہران کا دورہ کرچکے ہیں جس میں انہوں نے پاک بھارت جنگ میں ایران کے مقف پر اظہار تشکر کیا تھا۔ حسن نوریان نے کہا کہ ڈاکٹر پزشکیان کا دورہ پاکستان وزیراعظم شہبازشریف کی دعوت پر جوابی دورہ تھا۔حسن نوریان نے کہا کہ پچھلے ایک عشرے کے دوران ایران اور پاکستان کے تعلقات میں نسبتا استحکام آیا ہے، ایک دوسرے ممالک کے دورے بڑھے ہیں اور حکام کے درمیان تبادلے معمول بن گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ صدر ایران کے دورہ پاکستان کی خاص اہمیت یہ ہے کہ یہ دورہ جنوب اور مغربی ایشیا کی منفرد سیاسی صورتحال اور پیشرفت کے موقع پر کیا گیا ہے۔مئی میں بھارت اور پاکستان کے درمیان 4 روزہ جنگ ہوئی۔ یہ ایک ایسی جنگ تھی جس کے اثرات نہ صرف دونوں ملکوں بلکہ اس خطے اور دنیا پر پڑ رہے ہیں۔سینیئر سفارتکار نے کہا کہ اسلام آباد نے تہران کی جانب سے پاکستان اوربھارت کے درمیان ثالثی کی پیش کش اور کشیدگی کم کرنے کے لیے ایرانی وزیرخارجہ ڈاکٹر عراقچی کے دورہ پاکستان اور بھارت کو سراہا ہے۔حسن نوریان نے کہا کہ غزہ میں جاری اسرائیلی نسل کشی نے بھی عالمی سیاست پر اثر ڈالا ہے۔

اس ضمن میں ایران اور پاکستان کے مقف بہت اہمیت کے حامل ہیں۔دونوں ملک فلسطینی کاز کیلئے ٹھوس پوزیشن رکھتے ہیں۔اسرائیل کی جانب سے ایران پر مسلط 12 روزہ جنگ کا حوالہ دیتے ہوئے حسن نوریان نے کہا کہ اس لڑائی نے خطے اور اسلامی دنیا کی جیوپالیٹیکس کو تبدیل کردیا ہے۔ مسلم دنیا میں سب سے بڑے اور اہم ترین ممالک میں سے ایک پاکستان کی پوزیشن اس جنگ میں بہت اہم تھی۔ ایرانی عوام اور حکام نے پاکستان کے اس جرات مندانہ اور بہادرمقف کو ہمیشہ سراہا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان اور ایران کے مشترکہ مقف کی بنیاد وہ اصولی پالیسی ہے جو فلسطین کے معاملے پر بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور آیت اللہ خمینی نے ترتیب دی اور آج بھی جاری ہے۔حسن نوریان نے کہا کہ اس وقت اسرائیل اور امریکا کی جانب سے مشترکہ اور غیر قانونی طور پر ایران کی جوہری تنصیبات کے خلاف اقدامات اور ایسی صورتحال دوسری جگہوں پر دہرائے جانے کے خدشات پر شدید تشویش پائی جاتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ایران پر اسرائیلی حملے کی پاکستان کے مستقل مندوب کی جانب سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بحیثیت صدر مذمت کو تہران میں بہت مثبت انداز سے دیکھا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی جانب سے ڈائیلاگ اور مذاکرات کی حمایت اور ایران کو نیوکلئیر نالج کا حق رکھنے سے متعلق حمایت صدر پزشکیان اور وزیراعظم شہبازشریف کی پریس کانفرنس میں بھی جھلکی۔حسن نوریان نے کہا کہ ایران اور پاکستان نے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے تعاون بہتر بنانے کی خاطر مشترکا میکانزم بنائے ہیں۔

دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کے بے انتہا مواقع ہیں جنہوں حاصل کرنے کے لیے سنجیدہ سیاسی امنگوں کی ضرورت ہے۔پاکستان سے لاکھوں زائرین کی مذہبی سیاحت کیلئے ایران آمد بھی انہی مواقعوں میں سے ایک ہے۔انہوں نے کہا کہ اس وقت صرف 2 زمینی سرحدی گزرگاہیں رمدان اور میرجاوہ فعال ہیں جہاں سے سیاحوں اور تاجروں کو سہولت دی جارہی ہے۔ کوشش کی جانی چاہیے کہ ایک دوسرے ممالک کی ضرورت کو پورا کیا جائے۔حسن نوریان نے کہا کہ ایرانی اور پاکستانی حکام اس بات کو سمجھتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان 900 کلومیٹر طویل سرحد کو سکیورٹی بارڈر سے اقتصادی بارڈرمیں تبدیل کیا جانا چاہیے۔سینیئر سفارتکار نے کہا کہ دیگر ممالک سے ایران جو کچھ درآمد کرتا ہے وہ پاکستان میں باآسانی موجود ہے جبکہ پاکستان بہت سے ایسی چیزوں کو برآمد کرتا ہے جو ایران دیگر ممالک سے درآمد کرتا ہے۔ اس کے برعکس صورتحال بھی ایسی ہی ہے۔حسن نوریان نے زور دیا کہ ایران پاکستان چیمبر آف کامرس کو صوبائی سطح سے بڑھا کر قومی سطح پر لایا جانا چاہیے تاکہ یہ اقتصادی تعلقات کی مضبوطی میں زیادہ اہم کردار ادا کرسکے۔

کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی