وفاقی وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ پچھلی حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف سے معاہدے کی خلاف ورزی پر وہ اس بار بات چیت کرنے کو تیار نہیں تھے، امیروں کو مزید امیر کرکے حاصل ہونے والی گروتھ پائیدار نہیں ہوتی،پاکستان کا حال یہ ہے کہ یہاں کوئی ٹیکس نہیں دینا چاہتا۔جمعہ کوکراچی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے بتایا کہ پچھلی حکومت نے آئی ایم ایف سے معاہدہ توڑاتھا اور معاہدہ توڑنے کی وجہ سے آئی ایم ایف بات کرنے کیلئے تیارنہیں تھا۔ وزیرخزانہ نے بتایا کہ پاکستان کی آبادی 22 کروڑ ہے اور یہاں معیشت میں ترقی لانا کوئی مشکل نہیں ہے،4 فیصد معاشی گروتھ آرام سے لائی جاسکتی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ معیشت میں مسئلہ اس وقت ہوتا ہے جب گروتھ 5 اور 6 فیصد پر جاتی ہے اور یہ مسئلہ کرنٹ اکاونٹ خسارے کا ہوتا ہے۔ مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ ہم امپورٹ بڑھا کر معاشی گروتھ لانے کے ایک ہی اکنامک ماڈل پر کام کئے جارہے ہیں۔ امیروں کو مزید امیر کرکے حاصل ہونے والی گروتھ پائیدار نہیں ہوتی اور پاکستان کا حال یہ ہے کہ یہاں کوئی ٹیکس نہیں دینا چاہتا۔ انھوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک نے ٹیرف اسکیم کے تحت سابقہ حکومت میں 570 ارب روپے کے قرضے صرف 1 فیصد شرح سود پر جاری کردیئے۔ انھوں نے بتایا کہ کرونا وائرس کے دوران پاکستان کے ساڑھے 4 بلین ڈالر کی ادائیگیوں کو معاف کردیا۔
وزیرخزانہ نے بتایا کہ سابق حکومت کے دور میں ساڑھے 17 ملین ڈالر کا کرنٹ اکانٹ خسارہ تھا اور جب موجودہ حکومت آئی تو 10.8 ملین ڈالر کا کرنٹ اکانٹ خسارہ تھا۔ رواں مالی سال میں 21 ملین ڈالر کی ادائیگیاں کرنا تھیں اور تین ماہ میں بھی ادائیگیاں کرنا تھیں۔ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ ایکسپوٹ کرنے والوں کو زیادہ منافع نہیں ملتا اور منافع نہ ملنے کی وجہ سے ایکسپورٹر اپنا مال ملک میں ہی بیچتے ہیں۔ آبادی سے متعلق مفتاح اسماعیل نے کہا کہ سال 1971 میں مشرقی پاکستان کی آبادی مغربی پاکستان سے زیادہ تھی تاہم اب کم ہے،پاکستان میں آبادی کم کرنے کی بات کریں تو اسلام خطریمیں آجاتا ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات سے متعلق وزیرخزانہ نے کہا کہ تحریک انصاف کی سب سے بڑی معاشی غلطی پیٹرولیم مصنوعات سستی کرنا ان پر سبسڈی دینا تھی، اس سے ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کیاستعمال میں اضافہ ہوگیا۔ انھوں نے کہا کہ پیٹرول کمپنیز کو پتہ تھا کہ اس کی قیمت حکومت کو ادا کرنا پڑے گی اور 781 ارب روپے پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی کی مد میں دے دیئے گئے تاہم بعد میں یہ سب سبسڈی کرنا پڑی اور اس کی قیمت عوام کو دینا پڑی۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی