مقبوضہ کشمیر میں 2014 کے بعد ہونے والے انتخابات میں پہلی بار 15 ممالک کے غیر ملکی سفارت کاروں کو ووٹنگ کا مشاہدہ کرنے کی اجازت دی گئی۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق سری نگر اور نئی دہلی کے عہدیداروں نے بتایا کہ امریکہ، میکسیکو، سنگاپور، اسپین، جنوبی کوریا اور دیگر ممالک کے سفارت کار شامل ہیں۔بھارتی مقبوضہ کشمیر کے دوسرے مرحلے کے انتخابات میں ووٹرز نے حصہ لیا ،جن کی فوج اہلکاروں نے رائفلوں کے ساتھ پولنگ اسٹیشنوں کے باہر نگرانی کی۔بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی وجہ سے مسلم اکثریتی متنازع خطے کا براہ راست کنٹرول نئی دہلی کو سونپ دیا گیا، جس کے بعد بڑے پیمانے پر گرفتاریاں اور بلیک آئوٹ ہوا تھا۔ ووٹنگ کا آخری مرحلہ یکم اکتوبر کومنعقد ہوگا، جس کے نتائج ایک ہفتے بعد متوقع ہیں۔امریکی سفارت خانے کے ڈپٹی چیف آف مشن جورگن کے اینڈریوز کا کہنا ہے کہ کشمیر آنے، انتخابی عمل اور جمہوریت دیکھنے کا یہ ایک نادر موقع ہے، یہ بہت ہموار لگ رہا ہے، سب کچھ بہت پیشہ ورانہ ہے۔ دوسری جانب مودی کے مخالفین کے مطابق سفارت کاروں کا یہ دورہ غیر ضروری تھا۔مودی حکومت کے عزائم پر سوال اٹھاتے ہوئے مقامی نیشنل کانفرنس پارٹی کے رہنما عمر عبداللہ نے ان کے موقف میں تضاد کی نشاندہی کی۔ان کا مزید کہنا تھا کہ جب غیر ملکی حکومتیں تبصرہ کرتی ہیں تو بھارتی حکومت کہتی ہے کہ یہ ان کا اندرونی معاملہ ہے لیکن اب وہ چاہتے ہیں کہ غیر ملکی آئیں اور ہمارے انتخابات کی نگرانی کریں۔انہوں نے اپنا ووٹ ڈالنے کے بعد کہا کہ مقبوضہ کشمیر کے انتخابات ہمارا اندرونی معاملہ ہے اور ہمیں ان کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں ہے، عمر عبداللہ نے مودی حکومت پر لوگوں کی توہین اور ہراساں کرنے اور انہیں حراست میں لینے کا الزام بھی عائد کیا۔عمر عبداللہ کا مزید کہنا تھا کہ لوگ انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں، جو ان کی ثابت قدمی کا ثبوت ہے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی