یمن کے حوثیوں نے اسرائیل پر میزائل داغ دیا جس کے بعد ہنگامی صورتحال پیدا ہوگئی اور تل ابیب میں سائرن بج اٹھے۔ خوف کے باعث راتوں رات دس لاکھ یہودیوں نے شیلٹرز میں پناہ لے لی، بھگدڑ میں آٹھ افراد زخمی ہوگئے۔غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق یمن کے حوثی گروپ نے کہا ہے کہ انہوں نے جمعے کے روز اسرائیل پر نئے حملے کیے ہیں۔ ایسا اسرائیل کی جانب سے یمن کے مرکزی ائیرپورٹ اور ملک کے دیگر مقامات پر بمباری کے بعد ہوا۔اسرائیل نے ڈبلیو ایچ او کے سربراہ کی صنعا سے روانگی کے موقع پر فضائی حملے شروع کیے تھے۔ حملے میں اقوام متحدہ کی ٹیم کا ایک رکن زخمی ہوا۔ اسرائیلی فوج نے ابھی تک اس بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے کہ آیا وہ جانتے تھے کہ ڈبلیو ایچ او کے سربراہ ٹیڈروس اذانوم گریبیسس اس علاقے میں موجود تھے جب انہوں نے حملے شروع کیے تھے۔ تاہم گزشتہ روز حوثی گروپ نے کہا کہ انہوں نے تل ابیب ائیرپورٹ کو میزائل سے نشانہ بنایا اور شہر اور بحیرہ عرب میں ایک جہاز پر ڈرون بھی بھیجے۔ دوسری جانب اقوامِ متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر اسرائیل نے الحدیدہ بندرگاہ اور صنعا کے ایئرپورٹ پر حملے جاری رکھے اور انہیں غیرفعال رکھا تو یمن میں انسانی بحران مزید سنگین ہونے کا خطرہ ہے۔
عرب نیوز کے مطابق یمن میں اقوام متحدہ کے ریذیڈنٹ کوآرڈینیٹر جولین ہارنیس نے کہا کہ ملک میں زندہ رہنے کے لیے امداد کے مستحق افراد کی تعداد آنے والے سال میں ایک کروڑ 90 لاکھ تک پہنچنے کا امکان ہے۔ صنعا شہر میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یمن( جو جزیرہ عرب نما کا غریب ترین ملک ہے)، غذائی قلت کے شکار بچوں کی سب سے زیادہ تعداد کے حامل ممالک میں دوسرے نمبر پر ہے جبکہ غذائی عدم تحفظ کے حوالے سے تیسرے نمبر پر ہے۔جولین ہارنیس نے مزید کہا کہ وہاں (یمن ) کی خانہ جنگی جو تقریبا ایک دہائی سے جاری ہے، نے معیشت کو تباہ کر دیا ہے اور لاکھوں شہریوں کو زندگی کی بنیادی ضروریات تک رسائی سے محروم کر دیا ہے۔ ملک بقا کے بحران کی زد میں ہے۔ قبل ازیں اسرائیلی جنگی طیاروں نے یمن کے دارالحکومت صنعا کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے ساتھ ساتھ بحیرہ احمر کے ساحل پر بندرگاہوں اور پاور سٹیشنوں کو نشانہ بنایا جس میں کم از کم چار افراد جاںبحقہو گئے تھے ۔اسرائیل کے وزیراعظم بینجمین نیتن یاہو نے کہا کہ یہ حملے ایران کے حمایت یافتہ حوثیوں کی طرف سے ایک سال سے زیادہ کے میزائل اور ڈرون حملوں کا جواب ہیں اور ابھی آغاز ہو رہا ہے۔
کریڈٹ : انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی