اقوام متحدہ کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی دفاعی افواج (آئی ڈی ایف)کی فائرنگ سے اقوام متحدہ کی ایک بکتر بند گاڑی میں سوار دو امدادی کارکن بال بال بچ گئے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کے چیف ترجمان اسٹیفن ڈوجارک نے کہا کہ گزشتہ (منگل) شام کو اقوام متحدہ کی انسانی امداد کی ایک گاڑی کو آئی ڈی ایف کی فائرنگ سے 10 بار نشانہ بنایا گیا جس میں سامنے کی کھڑکیوں پر بھی گولیاں برسائی گئیں۔ عالمی ادارہ خوراک (ڈبلیو ایف پی) نے اعلان کیا ہے کہ وہ ڈبلیو ایف پی ٹیم کو اسرائیلی فوج کی جانب سے نشانہ بنائے جانے کے بعد غزہ میں اپنے ملازمین کی نقل و حرکت کو تاحکم ثانی روک رہا ہے۔ ادارے کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ وادی غزہ پل پر ایک اسرائیلی چوکی سے چند میٹر کے فاصلے پر اس وقت پیش آیا جب ٹیم دو بکتر بند گاڑیوں میں اپنے مشن سے کرم شالوم/ کرم ابو سالم واپس آ رہی تھیں۔ ادارے نے کہا کہ اسرائیلی حکام کی جانب سے چیک پوائنٹ تک پہنچنے کے لیے متعدد کلیئرنس ملنے کے باوجود گاڑی کو اس وقت براہ راست فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا جب وہ چیک پوائنٹ کی جانب بڑھ رہی تھی۔
گاڑی کو کم از کم 10 گولیاں لگیں جن میں سے پانچ ڈرائیور کی طرف، دو دوسری طرف اور تین گاڑی کے دیگر حصوں پر لگیں تاہم گاڑی میں سوار ملازمین کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ ڈبلیو ایف پی نے سفید رنگ کی ایک بڑی ایس یو وی قسم کی گاڑی کے بائیں جانب کی ایک تصویر جاری کی ہے جس پر بڑے سیاہ حروف میں "یو این" لکھا ہوا ہے اور ڈرائیور اور بائیں مسافر کی بلٹ پروف کھڑکیوں پر گولیوں کے نشانات واضح ہیں۔ تصویر میں گاڑی کے بائیں حصے پر گولیوں کا کوئی واضح نشان نہیں تھا۔ ڈبلیو ایف پی کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سنڈی میک کین نے کہا کہ یہ مکمل طور پر ناقابل قبول ہے اور غیر ضروری سکیورٹی واقعات کے سلسلے کی تازہ ترین کڑی ہے جس نے غزہ میں ڈبلیو ایف پی کی ٹیم کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جیسا کہ گزشتہ رات کے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ تنازعات کو ختم کرنے کا نظام ناکام ہو رہا ہے اور یہ مزید جاری نہیں رہ سکتا اسلئے میں اسرائیلی حکام اور تنازعیکے تمام فریقوں سے مطالبہ کرتی ہوں کہ وہ غزہ میں تمام امدادی کارکنوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے فوری طور پر کارروائی کریں۔ ترجمان ڈوجارک نے کہا کہ عالمی ادارہ آئی ڈی ایف کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ اس طرح کے واقعات دوبارہ نہ ہوں۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی