اسرائیلی پولیس نے مسجد الاقصی کے احاطے میں درجنوں نمازیوں پر حملہ کردیا جس کے نتیجے میں متعدد افراد زخمی ہو گئے ،غیر ملکیمیڈیا کے مطابق اسرائیلی پولیس نے بدھ کو طلوع آفتاب سے قبل مسجد الاقصی میں نمازیوں پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں 7افراد زخمی ہوئے ہیں جبکہ اسرائیلی پولیس کا کہنا تھا کہ یہ فسادات کا جواب ہے،فلسطینی ہلال احمر نے حملے کے نتیجے میں زخمیوں کی اطلاع دی لیکن یہ نہیں بتایا کہ کتنے لوگ زخمی ہوئے ہیں، اپنے ایک بیان میں فلسطینی ہلال احمر نے کہا کہ اسرائیلی فورسز ہمارے ڈاکٹروں کو الاقصی پہنچنے سے روک رہی ہیں،فلسطینی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق ایک بزرگ خاتون ایک کرسی پر بیٹھی قرآن کی تلاوت کر رہی تھی کہ یہودی پولیس اہلکاروں نے سٹن گرینیڈ پھینکنے شروع کر دیئے اور ان میں ایک خاتون کو لگا، خاتون کو سانس لینے میں دشواری پیش آرہی تھی،فلسطینی گروپوں نے نمازیوں پر تازہ ترین حملوں کی مذمت کی اوراسے جرم قرار دیا ہے، دوسری جانب عرب ممالک نے اسرائیل کی تازہ جارحیت کی شدید مذمت کی ہے ،سعودی عرب، اردن اور مصر، اردن کی جانب سے اسرائیلی فوج کی جانب سے مسجد اقصی پر حملے، نمازیوں کو زخمی کرنے اور متعدد کو گرفتار کرنے کی مذمت کی گئی ہے،سعودی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں سعودی عرب نے مسجد اقصی کے احاطے میں اسرائیل کے نمازیوں پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے مسترد کیا ہے
بیان میں کہا گیا ہے کہ ایسا طرز عمل امن کی کوششوں کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ قبضے کو ختم کرنے اور مسئلہ فلسطین کے منصفانہ اور جامع حل تک پہنچنے کے لیے تمام کوششوں کی حمایت میں اس کے مضبوط موقف کی تصدیق کرتا ہے،یہ حملہ رمضان کے مقدس مہینے میں کیا گیا جو اسلام میں روحانیت اور عبادات کا اہم وقت ہے،بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اس طرح کے اقدامات مقدس مذہبی مقامات کے احترام کے حوالے سے بین الاقوامی اصولوں اور ضابطوں کی خلاف ورزی ہیں،فلسطینی گروپوں نے بھی نمازیوں پر اسرائیل کے حملوں کی مذمت کرتے ہوئے اسے جرم قرار دیا ہے ،اردن نے اسرائیل کی طرف سے کمپائونڈ پر پرتشدد طوفان کی مذمت کی جبکہ مصر کی وزارت خارجہ نے الاقصی کے عبادت گزاروں پر اسرائیل کی جانب سے حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کیا ہے،دوسری جانب حماس نے تازہ حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے بے مثال جرم قرار دیا اور مغربی کنارے میں فلسطینیوں سے مسجد اقصی پہنچنے کی اپیل کی جس کے بعد فلسطینی خواتین اور بچوں سمیت شہریوں کی بڑی تعداد مسجد الاقصی پہنچ گئی،فلسطینی مسجد الاقصی کو ان چند قومی علامتوں میں سے ایک کے طور پر دیکھتے ہیں جن پر ان کا کنٹرول کا کچھ عنصر برقرار ہے، تاہم، وہ یہودی گروہوں کی طرف سے آہستہ آہستہ تجاوزات سے خوفزدہ ہیں جیسا کہ ہیبرون میں ابراہیمی مسجد میں ہوا ہے، جہاں 1967کے بعد مسجد کا نصف حصہ عبادت گاہ میں تبدیل ہو گیا تھا،فلسطینی انتہائی دائیں بازو کی اسرائیلی تحریکوں سے بھی پریشان ہیں جو مسجد الاقصی کے احاطے میں موجود اسلامی ڈھانچے کو منہدم کر کے ان کی جگہ یہودی مندر بنانا چاہتے ہیں۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی