سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے گونتاناموبے سمیت بیرون مملک قید پاکستانیوں کی تفصیلات وزارت خارجہ سے مانگ لیں،نیٹو کی طرف سے بے گناہ شہریوں کی ہلاکت پر پاکستان نے کبھی ان سے کمپنسیشن نہیں مانگی اگر مانگتے تو مل جاتی،پاکستان میں صحت کے شعبے میں کام کرنے والی امریکہ این جی او میں پاکستانی خواتین کو حراساں کرنے پر کمیٹی نے تشویش کااظہارکرتے ہوئے کہاکہ اگر امریکہ میں یہ واقعات ہوتے تو وہاں پر بھی اسی طرح خاموشی اختیار کی جاتی ، سینیٹ کی انسانی حقوق کمیٹی نے تمام نجی اور سرکاری اداروں کو انٹرل ہراسمنٹ کمیٹی بنانے کی ہدایت کردی۔ڈی کے ٹی پاکستان کے بارے میں انکشاف ہواہے کہ اس کی فنڈنگ پورن ویڈیو سے بھی آتی ہے،قائمہ کمیٹی نے 9 مئی کے واقعات کے خلاف مذمتی قرارداد منظور کر لی،بین الاقوامی معاہدوں کے مطابق ان افراد کو شفاف ٹرائل کا حق دیا جائے ۔جمعہ کوسینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس چیئرمین ولید اقبال کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاوس میں ہوا۔اجلاس میں سید وقار مہدی، عابدہ عظیم، فلک ناز چترالی، ڈاکٹر ہمایوں مہمند ،سیمی ایزدی سمیت وفاقی سیکرٹری انسانی حقوق ،حکام وزارت خارجہ ،ودیگر نے شرکت کی ۔وزارت خارجہ کے حکام نے کمیٹی کو بتایاکہ گونتاناموبے میں قید پاکستانی ربانی برادر پاکستان پہنچ گئے ہیں۔24فروری2023 کا پاکستان پہنچ گئے تھے اب وہ کراچی میں ہیں ۔ایک بھائی نے خطاطی بھی اسی دوران کی ہے ۔سینیٹرسیمی ایزدی نے کہاکہ 21سال بغیر چارجز کے وہ جیل میں رہے اس سے بڑی کوئی ذیادتی نہیں ہوگی، چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ ایک اورپاکستانی ماجدخان جو گوانتانامو بے میں ہے اس کے بارے میں بتائیں۔ حکام وزارت خارجہ نے کہاکہ ربانی برادر ویگر کے بارے میں امریکہ نے پاکستان کو کہا تھا کہ آپ کے شہری گوانتامو بے میں ہیں۔ہمایوں مہند نے کہاکہ امریکہ نے کب کہا تھا کہ یہ قیدی پاکستانی ہیں حکام نے بتایاکہ اس کا مجھے ابھی علم نہیں ہے۔سینیٹر ہمایوں مہمند نے کہاکہ یہ شرمندگی ہے کہ جب تک سینیٹر نے اس معاملے کو نہیں اٹھایا گورنمنٹ نے اپنے شہریوں کو چھوڑ دیا اور کسی نے نہیں پوچھا۔
سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہاکہ 2008میں میں نے وفد لے کرا مریکہ گیا اور عافیہ کو ملنے گئے ہم نے اپنی کوشش کی اب دوبارہ کوشش ہورہی ہے ۔میں نے فوزیہ صدیقی کو کہاتھا کہ عمران خان کے ڈونالڈ ٹرمپ کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں وہ ان کو عافیہ کے لیے درخواست کریں مگر اس پر پیش رفت نہیں ہوئی ہم نے حکومت سے 1.2ملین ڈالر عافیہ کے کیس مین وکیل کو دیئے تھے۔سینیٹر وقار مہدی نے کہاکہ ربانی برادرز کو کمیٹی میں بلایاجائے تاکہ وہ اپنے بارے میں بتائیں ۔مشاہد حسین نے کہاکہ جب یہ لوگ قید ہوئے اس وقت ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کے اتحادی تھے ۔ہمایوں مہمند نے کہاکہ ہم جرم میں اتحادی تھے کیا اس لیے اپنے شہریوں پر خاموش تھے ۔ مشاہد حسین سید نے کہاکہ ہم امریکہ کے ساتھ جرم میں اتحادی تھے۔حکام نے نتایاکہ ماجد خان فروری 2023کو رہاکردیا گیا وہ سنٹرل امریکہ میں رہے رہے ہیں اور پاکستان نہیں آئے19سال قید رہے ہیں ۔ حکام وزارت نے کمیٹی کوبتایاکہ گوانتاناموبے میں اب کوئی پاکستانی نہیں ہے امریکہ سے ہم نے پوچھا ہے جس پر انہوں نے بتایاہے کہ گوانتاناموبے کوئی پاکستانی نہیں ہے اور ایسا بھی کوئی نہیں ہے جو اپنے آپ کو پاکستانی کہتا ہو۔ مشاہد حسین سید نے کہاکہ گونتاناموبے میں قیدخالد شیخ محمد کی شہریت کیا ہے جو پاکستان کراچی سے پکڑے گئے تھے کیا وہ پاکستانی نہیں ہیں ۔حکام وزارت خارجہ نے جواب نہیں دیا ۔چیرمین کمیٹی نے کہاکہ اگلے ماہ جولائی میں وزارت خارجہ کو دوبارہ بلانے کا فیصلہ کیا ۔پاکستانی جو بیرون ملک قید ہیں اس کی معلومات دی جائے اور 4گوانتاناموبے میں قید پاکستانیوں کو رہا کرنے میں اتنا وقت کیوں لگا اس کے بارے میں بتایا جائے۔ مشاہد حسین سید نے کہاکہ پاکستانی میں جنگ کے دوران جو جانی نقصان ہواہے اس کے بارے میں پاکستان نے کبھی نیٹو سے مطالبہ نہیں کیا کہ بے گناہ جو مارے گئے ہیں اس کے بارے میں کمپنسیشن دی جائے میں نے10 سال قبل سیکرٹری نیٹو سے بات کی تو انہوں نے کہاکہ اس کے بارے میں ہے کہ ان کو کمپنسیشن دی جائے مگر پاکستان نے کبھی اس کے بارے میں مطالبہ نہیں کیا ہے۔
پاکستان نے اس وقت مطالبہ اس لیے نہیں کیا کہ امریکہ ناراض نہ ہوجائے ۔کمیٹی میں غیر ملکی این جی اوڈی کے ٹی کی ملازم خواتین سے جنسی ہراسگی کا معاملہ زیر غور آیا۔ڈی کے ٹی نامی این جی او میں جنسی ہراسانی کا شکار خواتین کمیٹی کے سامنے پیش ہوئیں۔چیئرمین ولید اقبال نے کہاکہ پاکستان میں ورک پیلیس پر خواتین کو ہراسانی سے بچانے کا قانون 2010سے موجود ہے ڈی کے ٹی کے حوالے سے کئی خواتین ملازم شکایات کرچکی ہیں،ڈی کے ٹی کی انٹرنل انکوائری رپورٹ میں جنسی حراسانی کی تصدیق ہوئی،اب تک پانچ خواتین اس این جی او کیخلاف تحریری شکایت کر چکیں۔ڈاکٹر امبرین متاثرہ خاتون نے کہاکہ گزشتہ پانچ سے سات سال میں اس این جی او میں حراسانی کا معاملہ چل رہا ہے،ہم نے انتظامیہ کو شکایات بھی کیں مگر ایکشن نہیں ہوا، ہمیں حراساں کیاجاتاہے ہم ادارے کے سربراہ کو میل کرتے ہیں وہ واپس پاکستان کے سربراہ کو میل کردیتا ہے اور اس طرح حرسانی کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہے اور کوئی اس کو روک نہیں رہاہے ۔معاملہ میڈیا میں آنے کے بعد انسانی حقوق کی کمیٹی نے نوٹس لیا ہے،ڈی کے ٹی کی سابق ملازم نے کمیٹی کوبتایاکہ این جی اوز کی فنڈنگ پورن ویڈیوز سے بھی آتی ہے ۔ڈی کے ٹی کے پاکستان میں سربراہ نے کمیٹی کے سامنے اپنا موقف پیش کیااور کہاکہ اب حراسانی کمیٹی قائم ہوچکی ہے ۔سینیٹ کی انسانی حقوق کمیٹی نے تمام نجی اور سرکاری اداروں کو انٹرل ہراسمنٹ کمیٹی بنانے کی ہدایت کردی۔ کمیٹی نا بنانا ہراسمنٹ ایکٹ کی خلاف ورزی ہے۔قائمہ کمیٹی نے 9 مئی کے واقعات کے خلاف مذمتی قرارداد منظور کر لی۔ قرارداد میں کہاگیاہے کہ یہ کمیٹی 9 مئی کو جلا گھیرا فوجی اور سول تنصیبات حملوں کی مذمت کرتی ہے مضبوط دفاعی ادارے مضبوط جمہوری نظام کا حصہ ہیں شہدا کی نشانیوں کی بے حرمتی کرنے کی مذمت کرتے ہیں سول او ملٹری تنصیبات ںکو نقصان پہنچانے اور لوٹ مار میں ملوث افراد کیخلاف کاروائی کی جائے ۔بین الاقوامی معاہدوں کے مطابق ان افراد کو شفاف ٹرائل کا حق دیا جائے۔(محمداویس)
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی