اسلام آ باد ہائیکورٹ نے شریف برادران کے خلاف توہین عدالت کی درخواست قابلِ سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا،چیفجسٹس اسلام آ باد ہائیکورٹ نے کہا کہ آپ کہیں بھی جانے کیلئے آزاد ہوں گے، ہم آبزرویشن نہیں دیں گے، ہم اس درخواست پر مناسب حکم نامہ جاری کریں گے،جس پٹیشن پرابھی فیصلہ نہیں آیا اور عبوری حکم بھی چیلنج نہیں کیا گیا اس پر ہم توہین عدالت کی کارروائی کریں؟۔تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں وزیراعظم شہبازشریف اور سابق وزیر اعظم نوازشریف کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے رجسٹرارآفس کے اعتراضات کے ساتھ سماعت کی۔ پٹیشنرظفرعلی شاہ ایڈووکیٹ نیعدالت میں پیش ہو کر درخواست پردلائل دیے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وفاقی کابینہ نے نام ای سی ایل سے نکالا، کسی کورٹ نے نہیں،وفاقی کابینہ نے ای سی ایل سے نام نکالنے کے لیے عدالت سے اجازت نہیں لی۔ ظفر علی شاہ نے دلائل دیے کہ حکومت نے نام ای سی ایل سے نکالنے کے لیے شورٹی جمع کرانے کا کہا تھا۔ عدالت نے کہا کہ حکومت نے اس عدالت سے رجوع ہی نہیں کیا جہاں اپیلیں زیر سماعت ہیں۔ ظفرعلی شاہ نے دلائل دیے کہ حکومت نے ایک مرتبہ نام ای سی ایل سے نکالنے کے لیے رقم جمع کرانے کی شرط رکھی تھی۔
لاہورہائی کورٹ میں رٹ فائل ہوئی جس پر ایک آرڈر ہوتا ہے۔ اس عدالتی کارروائی میں نواز شریف اور شہبازشریف نے انڈر ٹیکنگ دی۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ لاہورہائی کورٹ کا آرڈرعبوری حکم تھا یا حتمی فیصلہ سنایا گیا تھا؟ ایک عبوری حکم جاری ہوا، اس کے بعد پٹیشن تاحال زیر التوا ہے۔ کیا حکومت نے اس حکم کو چیلنج کیا؟ عدالت نے ریمارکس دیے کہ عبوری حکم کو چیلنج نہ کرکے حکومت نے اس آرڈر کو تسلیم کیا۔ جس پٹیشن میں عبوری حکم آیا وہ بھی تاحال لاہورہائی کورٹ میں زیرالتوا ہے۔ ظفر علی شاہ ایڈووکیٹ نے دلائل دیے کہ میں چاہتا ہوں کہ فریقین کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے جس پر عدالت نے کہا جس پٹیشن پرابھی فیصلہ نہیں آیا اور عبوری حکم بھی چیلنج نہیں کیا گیا اس پر ہم توہین عدالت کی کارروائی کریں؟ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ کیا یہ عدالت کسی اور ہائی کورٹ میں زیر سماعت معاملے پر کارروائی کا اختیاررکھتی ہے؟ ایک اور ہائیکورٹ کے سامنے موجود معاملے کو ہم نہیں سنیں گے۔ آپ سینئر وکیل ہیں کیا آپ ابھی بھی اس درخواست کو پریس کریں گے؟ پیٹشنرسید ظفرعلی شاہ نے جواب دیا کہ اگر آپ نے درخواست مسترد کرنی ہے تو میں واپس لیتا ہوں۔ میں لاہور ہائی کورٹ جانے کے لیے درخواست واپس لے سکتا ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہیں بھی جانے کیلئے آزاد ہوں گے، ہم آبزرویشن نہیں دیں گے، ہم اس درخواست پر مناسب حکم نامہ جاری کریں گے جس کے بعد عدالت نے درخواست کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
کریڈٹ:
انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی