i پاکستان

ریاست کے فراموش کردہ کارکن: اے پی پی پنشنرز انصاف کے منتظرتازترین

October 10, 2025

گزشتہ تین برسوں سے ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی) کے ریٹائرڈ ملازمین اپنے جائز حق کے حصول کے لیے دربدر ہیں۔ پارلیمان کی منظوری اور حکومت کے باضابطہ اعلانات کے باوجود ان کی پنشن میں اضافہ اب تک عمل میں نہیں لایا جا سکا. 

اے پی پی پینشنرز ایسوسی ایشن کے صدر جاوید اختر نے ایک بیان میں کہا کہ حکومت نے یکے بعد دیگرے 2023ء میں 17.5 فی صد، 2024ء میں 15 فی صد اور 2025ء میں 7 فی صد اضافے کا اعلان کیا تھا جس کا اطلاق اے پی پی کے پینشنرز پر ہنوز ہونا باقی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اضافے صرف کاغذوں میں محدود ہیں اور بڑھتی ہوئی مہنگائی میں پینشنرز ابھی تک انتظار میں ہیں کہ ان کی مالی دشواریوں کا بھی احساس کیا جائے۔ دوسری طرف ارکانِ پارلیمان، وزراء، ججز اور اعلیٰ سرکاری افسران کی تنخواہوں اور مراعات میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا ہے۔ یہ تضاد محض مالی ناانصافی نہیں بلکہ ایک ایسی سماجی دراڑ ہے جو طاقتور اور کمزور طبقات کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کو ظاہر کرتی ہے۔

اے پی پی کے ریٹائرڈ ملازمین نے اپنی زندگی کے بہترین سال ریاستی میڈیا کی خدمت میں گزارے۔ انہوں نے مشکل حالات میں سچائی اور ذمہ داری کے ساتھ قومی بیانیے کو آگے بڑھایا، مگر آج وہی لوگ بڑھاپے میں مہنگائی اور معاشی دباؤ کے بوجھ تلے پسے جا رہے ہیں۔ ان کی واحد آمدنی یہی پنشن ہے، جس میں تین سال سے کوئی اضافہ نہیں ہوا۔

افسوس ناک امر یہ ہے کہ یہ بزرگ ملازمین اپنے واجبات کے حصول کے لیے وزارتِ اطلاعات، وزارتِ خزانہ اور اے پی پی کے دفاتر کے درمیان فائلوں کے چکر لگاتے پھرتے ہیں۔ کوئی انہیں یقین دہانی کراتا ہے، کوئی ٹال مٹول سے کام لیتا ہے۔ اس بے حسی نے ان کے اندر مایوسی اور احساسِ محرومی کو گہرا کر دیا ہے۔

ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان لوگوں کو فراموش نہ کرے جنہوں نے برسوں اس کے ادارے کو اپنی پیشہ ورانہ دیانت سے قائم رکھا۔ پنشن میں اضافہ دینا احسان نہیں بلکہ ان کا قانونی اور اخلاقی حق ہے۔ اگر اربابِ اختیار اپنے لیے مراعات میں مسلسل اضافہ کر سکتے ہیں تو ان سابق ملازمین کے لیے جائز اضافے روکنا انصاف کے منافی ہے۔

وقت آ گیا ہے کہ حکومت فوری طور پر اے پی پی پنشنرز کے واجبات ادا کرے اور ان کے اعلان کردہ اضافے نافذ کرے۔ ریاست کی اصل شان اسی میں ہے کہ وہ اپنے وفادار خادموں کا خیال رکھے — کیونکہ ایک معاشرہ اپنی طاقتور اشرافیہ سے نہیں، اپنے کمزور شہریوں کے سلوک سے پہچانا جاتا ہے۔

 

کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی