پنجاب حکام نے کہا ہے کہ تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے سربراہ سعد رضوی اور ان کے بھائی انس رضوی کا سراغ لگا لیا ہے، حکام کے مطابق دونوں مفرور رہنما مریدکے میں ہونے والے کریک ڈائون کے بعد آزاد جموں و کشمیر فرار ہو گئے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق ایک سینئر اہلکار نے بتایا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے یہ معلومات آزاد جموں و کشمیر کی انتظامیہ کے ساتھ شیئر کر دی ہیں اور ان سے ٹی ایل پی رہنمائوں کی گرفتاری میں تعاون مانگا گیا ہے، یہ پیشرفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ٹی ایل پی کے حلقوں میں یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ ان کے سربراہ پہلے ہی حراست میں ہیں۔اہلکار کے مطابق کریک ڈائو ن کے بعد پنجاب پولیس اور دیگر اداروں کے سینئر افسران پر مشتمل کئی ٹیمیں سعد رضوی اور ان کے بھائی کا سراغ لگانے کیلئے تعینات کی گئی تھیں۔انہوں نے بتایا کہ سعد رضوی اور ان کے بھائی کو پہلی بار مریدکے میں احتجاجی کیمپ سے پیدل جاتے اور پھر موٹر سائیکل پر فرار ہوتے دیکھا گیا، اس وقت قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان ایک ہنگامی پیغام جاری کیا گیا کہ ایک موٹر سائیکل سوار کے ساتھ ٹی ایل پی کے سربراہ اور ان کا بھائی قریبی گلیوں کی طرف جا رہے ہیں۔تاہم تینوں مشتبہ افراد قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کو چکمہ دینے میں کامیاب ہوگئے، جس کے بعد سوشل میڈیا پر ان کے زخمی ہونے سے متعلق طرح طرح کی افواہیں گردش کرنے لگیں۔افسر نے بتایا کہ خصوصی ٹیموں نے بالآخر ٹی ایل پی رہنمائو ں کی آخری لوکیشن آزاد جموں و کشمیر میں ٹریس کی، جس کے بعد ان کی گرفتاری کے لئے علاقائی حکومت سے مدد طلب کی گئی۔
دوسری جانب، وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے بھی سعد رضوی کے نام پر چلنے والے تقریبا 95 بینک اکائونٹس کا سراغ لگایا ہے، اہلکار کے مطابق ان میں سے 15 اکائو نٹس سود پر مبنی تھے، اور ایف آئی اے ان بینکوں سے مزید تفصیلات حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ ان اکائو نٹس کے لین دین کا جائزہ لیا جا سکے ۔رپورٹ کے مطابق مذہبی تنظیم کے خلاف وسیع کریک ڈائو ن کے ایک حصے کے طور پر پنجاب حکومت نے صوبے بھر میں ٹی ایل پی کے زیر انتظام 61 مدارس کی نشاندہی بھی کرلی ہے، ان مدارس کے مستقبل سے متعلق معاملہ اہلِ سنت علما اور صوبائی حکام کے درمیان ہونے والی ملاقات میں بھی زیر بحث آیا، جہاں اس بارے میں تجاویز پیش کی گئیں۔ملاقات میں دو تجاویز پر غور ہوا، پہلی تجویز یہ تھی کہ ان مدارس کو محکمہ اوقاف کے انتظامی کنٹرول میں دے دیا جائے، تاہم زیادہ تر شرکا نے اس تجویز کی مخالفت کی کیونکہ ان کے مطابق اس اقدام سے صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے اور مستقبل میں خصوصا مالی اخراجات کے بڑے حجم کے باعث تنازعات پیدا ہو سکتے ہیں۔دوسری تجویز یہ تھی کہ ان مدارس کو معتدل اہل سنت علما کے حوالے کر دیا جائے، جسے قابلِ عمل قرار دیا گیا، حکام کے مطابق اس صورت میں علما ان مدارس کو عسکریت پسندی کے عنصر کے بغیر چلائیں گے، تاہم مدارس کے مستقبل کے بارے میں حتمی فیصلہ ابھی نہیں کیا گیا۔دریں اثنا، ملتان کی ضلعی انتظامیہ نے پنجاب حکومت کے احکامات کے مطابق ٹی ایل پی کے 10 مدارس سیل کر دئیے اور متعدد کو محکمہ اوقاف کے حوالے کر دیا، یہ مدارس ملتان، شجاع آباد اور بستی ملوک میں واقع تھے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی