i پاکستان

پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے زیادہ متاثر ہے، وزارت موسمیاتی تبدیلیتازترین

August 29, 2022

وزارت موسمیاتی تبدیلی نے کہا ہے کہ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کا ذمہ دار نہیں تاہم اسے یہ تبدیلیاں بھگتنا پڑرہی ہیں، پاکستان اپنی جی ایچ جی کے اخراج کو کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے، ہماری غلطیوں کے مقابلے میں سزا کافی زیادہ ہے ،پاکستان بھر میں رواں سال مارچ سے شروع ہونے والی شدید گرمی سے لاکھوں لوگ بری طرح متاثر ہوئے ،پورے جنوبی ایشیا میں گرمی کی وجہ سے ہونے والی اموات، گندم کی فصل متاثر، بجلی کی بندش اور آگ لگنے سے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت نے غریب اور پسماندہ کمیونٹیز کو خاص طور پر متاثر کیا ۔ یہ بات ایڈیشنل سیکریٹری وزارت برائے موسمیاتی تبدیلی جودت ایاز نے گوادر پرو کو خصوصی انٹرویو میں بتائی ۔ انہوں نے کہا جرمن واچ کی طرف سے جاری کردہ گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس 2021 کے مطابق ایک رپورٹ جو تجزیہ اور درجہ بندی کرتی ہے کہ ممالک اور خطے کس حد تک موسمیاتی متعلقہ شدید موسمی واقعات (طوفان، سیلاب، ہیٹ ویوز وغیرہ) کے اثرات سے متاثر ہوئے ہیں ۔ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے ترقی پذیر ممالک خاص طور پر متاثر ہوئے ہیں۔ گزشتہ چند سالوں کے دوران ہیٹی، فلپائن اور پاکستان جیسے ممالک جو بار بار تباہی سے مسلسل متاثر ہوتے ہیں، طویل مدتی انڈیکس اور متعلقہ سال کے انڈیکس دونوں میں سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں سر فہرست ہیں۔ گوادر پرو کے مطابق ایڈیشنل سیکرٹری نے کہا کہ اس سال زیادہ درجہ حرارت کی وجہ سے ہمارے پھل اور فصلیں مکمل پھل یا اناج نہیں بنا سکتیں اور اگر دنیا کا درجہ حرارت ایک خاص سطح سے بڑھتا ہے تو بہت سے ساحلی شہر زیر آب آ جائیں گے اور بظاہر پاکستان کی ساحلی پٹی متاثر ہو گی۔ وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان نے ایک بار ریڈیو پروگرام میں بتایا کہ گلوبل وارمنگ کے

نتیجے میں تیزی سے پگھلتے ہوئے گلیشیئرز نے گلگت بلتستان اور خیبر پختونخواہ میں 3,044 سے زیادہ برفانی جھیلیں تخلیق کی ہیں، ان میں سے تینتیس کسی بھی لمحے پھٹ سکتی ہیں،ہم خاندانوں اور لوگوں کو ہٹانے میں کامیاب رہے، لیکن یہ ہمیں دیکھ رہا ہے کہ پاکستان کے لیے موسمیاتی تناؤ کتنا حقیقی اور خطرناک ہے، یہ بالکل لفظی طور پر یہاں اور اب ہے ۔کہانی کا افسوسناک حصہ یہ ہے کہ ہم دنیا میں سب سے کم اخراج کرنے والوں میں سے ایک ہیں، اور اس کے باوجود ہم آب و ہوا کے نمونوں میں تقریباً وجودی تبدیلی کی تباہ کاریوں کا سامنا کر رہے ہیں اور ان تمام بحرانوں کی زندہ مثال ہیں ۔ جودت ایاز نے گوادر پرو کو بتایا کہ دنیا میںب و ہوا پر بحث ہوتی ہے لیکن اسے سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا ۔ تاریخی آب و ہوا کے اخراج پر توجہ دی جانی چاہیے کیونکہ موسمیاتی تبدیلی بڑے آلودگی پھیلانے والے ممالک بنیادی طور پر ان کے آباؤ اجداد نے پیدا کی ہے۔ جودت ایاز نے کہا کہ عالمی رہنما ایک کمرے میں بیٹھ کر فیصلہ کر رہے تھے۔ ان میں اکثریت کی عمر ساٹھ سال سے زیادہ تھی۔ کچھ کی عمر ستر سے بھی زیادہ تھی۔ وہاں باہر بیٹھے اور سبز امن کے لیے احتجاج کرنے والے لوگ زیادہ تر بیس سے پینتیس سال کے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ جب گلوبل وارمنگ کا اثر نمودار ہوا تو دفتروں کے یہ تمام بوڑھے مر چکے ہوں گے،ہمیں ان کے فیصلوں کے نتائج کے ساتھ جینا ہے۔ کون سے ممالک تاریخی طور پر موسمیاتی تبدیلی کے ذمہ دار ہیں؟' 'کے عنوان سے ایک تجزیاتی رپورٹ کاربن بریف نے جاری کی گئی یہ رپورٹ تاریخی اہمیت کی حامل ہے

کیونکہ صنعتی انقلاب کے آغاز کے بعد سے خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ (CO2) کی مجموعی مقدار 1.2C کے درجہ حرارت سے قریبی تعلق رکھتی ہے جو پہلے ہی واقع ہو چکی ہے۔ مجموعی طور پر انسانوں نے 1850 سے اب تک تقریباً 2,500 بلین ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ (CO2) (GtCO2) فضا میں خارج کی ہے، جس سے باقی کاربن بجٹ کا 500GtCO2 سے بھی کم درجہ حرارت 1.5C سے کم رہ گیا ہے۔ درجہ بندی میں پہلے نمبر پر امریکہ نے 1850 سے اب تک 509 گیگا ٹن زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈخارج کی اور کاربن بریف تجزیہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ دنیا کے کل کا تقریباً 20 فی صد کے ساتھ تاریخی اخراج کے سب سے بڑے حصے کے لیے ذمہ دار ہے، ۔ اگرچہ حالیہ دہائیوں میں بڑے آلو دگی پھیلانے والے ممالک نے اپنے اخراج کو نمایاں طور پر کم کیا ہے، لیکن وہ آج بھی تاریخی گرمی میں سب سے اہم کردار ادا کرنے والوں میں شامل ہیں۔ جودت ایاز نے گوادر پرو کو بتایا کہ میں ان ترقی یافتہ ممالک سے ملنے والی مالی اور تکنیکی مدد سے مطمئن نہیں ہوں، انہوں نے مزید کہا کہ مغربی یورپ اور شمالی امریکہ کے ترقی یافتہ ممالک کبھی بھی اپنا وعدہ پورا نہیں کرتے۔ بدقسمتی سے اگر کسی نے سو روپے کا وعدہ کیا ہے تو صرف پچیس روپے ہی آخر کار منزل تک پہنچتے ہیں۔ جودت ایاز نے کہا جب تک ہمیں نشت نہ دی جائے نہ بولنے دیا تو ہم سے اس کا حل نہیں مانگا جاسکتا اور ہم اس ضمن میں کچھ نہیں کرسکتے۔

کریڈٹ:
انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی