لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب حکومت کے پراپرٹی سے متعلق بنائے گئے قانون پر تحفظات کا اظہار کر دیا۔لاہور ہائیکورٹ کی چیف جسٹس عالیہ نیلم نے پنجاب پراپرٹی آنر شپ آرڈیننس کے خلاف کیس کی سماعت کی۔عدالت نے پنجاب حکومت کے پراپرٹی سے متعلق بنائے گئے قانون پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے 6 درخواستوں پر اعترضات ختم کر دیئے۔عدالت نے سرکاری وکیل سے استفسارکیا کہ یہ کیا مذاق ہو رہا ہے، یہ پٹواری اور اے سی کو جج بننے کا شوق چڑھا ہے، ایک معاملہ سپریم کورٹ میں زیرالتوا ہے تو پٹواری کیسے کارروائی کرسکتا ہے، کیا پاکستان اب جنگل بن گیا ہے، جو پٹواری اور تحصیل دار جعلی دستاویزات تیارکرتا ہے وہی جائیدادوں کا فیصلہ کرے گا؟۔چیف جسٹس عالیہ نیلم نے ریمارکس دیئے کہ ہم یہ ظلم نہیں ہونے دیں گے، اے سی اور پٹواری کو جج بننے کا اتنا شوق ہے تو امتحان دے کر سسٹم کا حصہ بنیں، آپ کا پیرا کیا کر رہا ہے کیا اب پیرا لوگوں کو ڈگریاں دے گا
یہ قانون کس نے بنایا ہے؟ کیا کسی قانونی دماغ سے مشاورت کی؟ آپ نے ٹریبونلز بنائے مگر وہ بھی صرف آنکھوں کا دھوکہ ہے۔واضح رہے کہ ایڈووکیٹ قمرالزماں اعوان سمیت دیگر کی جانب سے درخواستیں دائرکی تھیں۔درخواستوں میں موقف اختیار کیا گیا کہ پنجاب حکومت نے نیا قانون بنایا ہے جس کے تحت ڈی سی اے سی کو پراپرٹی تنازعات سے متعلق اختیار دیا ہے، فیصل آباد میں پراپرٹی 50 سال لیز پر لی تھی، کیس سپریم کورٹ میں زیرالتوا تھا، دوسرے فریق نے نئے قانون کے تحت ڈی سی کو درخواست دی، ڈی سی فیصل آباد نے درخواست پر پراپرٹی سیل کر دی، استدعا ہے کہ عدالت ڈی سی کا فیصلہ کالعدم قرار دے۔بعدازاں عدالت نے درخواستوں پر نوٹس جاری کرتے ہوئے 22 دسمبر کو جواب طلب کر لیا۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی