وزیردفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ افغان قابض رجیم میرے سامنے دہشت گردوں کی موجودگی کا اعتراف کرچکی ہے، افغان طالبان دھمکی دیتے ہیں اور مذاکرات کی بات بھی کرتے ہیں،دھمکانے کے ساتھ مذاکرات کی بات کرنے والے افغان طالبان پہلے دھمکی پر عمل کرلیں، اس کے بعد مذاکرات بھی کرلیں گے۔ اپنے انٹرویو ز میں خواجہ آصف نے کہا کہ اگر کسی ملک سے حملہ ہوتا ہے تو جواب کا حق مل جاتا ہے۔خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان نے کسی افغان شہری آبادی کو نشانہ نہیں بنایا، افغان وزیر خارجہ امیر متقی پر کون یقین کرے گا۔وزیردفاع نے واضح کیا کہ افغانستان کی سرزمین مختلف دہشت گرد گروہوں کی پناہ گاہ ہے، شہری آبادی کو نہیں بلکہ صرف دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کو تباہ کیا۔خواجہ آصف نے کہا کہ سرحدوں کی حفاظت کی ذمہ داری وفاق کی ہے صوبوں کی نہیں،افغان مہاجرین کے انخلا کا معاملہ وفاقی ہے اسے وفاق ہی طے کرے گا، جن کے پاس دستاویزات نہیں، ہمیں اختیار حاصل ہے کہ ان کو واپس بھجوائیں۔ انہوں نے کہا کہ افغان قابض رجیم کہہ چکی ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی والے ہمارے ساتھی رہے ہیں۔افغان قابض رجیم نے کہا کہ یہ کارروائی کرتے ہیں تو ہماری کوئی پشت پناہی نہیں ہوتی،افغان قابض رجیم نے کہا کہ ان دہشت گردوں پر ایسا کنٹرول نہیں جس طرح سمجھا جاتا ہے۔افغان قابض رجیم نے کہا کہ 10بلین روپے دیں ہم ان لوگوں دوسری جگہ بسا دیں گے، ان لوگوں کے واپس نہ آنے کی ضمانت نہیں دی۔
خواجہ آصف نے کہا کہ اگر کوئی یہ سمجھ رہا ہیکہ وہ کہیں چھپ کر بیٹھا ہے اور اس کا پتہ نہیں چل سکتا تو وہ غلط سوچ رہا ہے، جدید دور ہے زمین کے نیچے بیٹھے لوگوں کا بھی پتہ چل جاتا ہے۔وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ جو ہمارے پاکستانیوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگے گا ہم اسے نہیں چھوڑیں گے، اسے کسی صورت نہیں بخشا جائے گا، جو ہوگا ہم اسی سطح پر منہ توڑ ردعمل دینگے، اب ٹٹ فار ٹیٹ ہوگا۔انہوں نے کہا کہ اب یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ ہمارے لوگوں کو شہید کیا جائے اور ہم خاموش ہوجائیں، جب بھی جارحیت ہوگی ہماری طرف سے بھرپور جواب ہوگا، اب ہم اے بی سی پلانز جیسے حملے نہیں کرینگے، ہمارے پاس تمام معلومات ہیں۔خواجہ آصف نے کہا کہ ہم نہیں چاہتے کہ کشیدگی بڑھیاور مزید نقصان ہو، ہم چاہتے ہیں افغانستان میں بیٹھے لوگ سوچیں اس جنگ سے کیا فائدہ ہوگا؟ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان غیرمستحکم ہوگا تو یہ ممکن نہیں۔ہماری خواہش ہے کہ افغانستان کیساتھ تعلقات معمول پر آئیں، ہم محبت کیساتھ رہنا اور دوست ممالک کی طرح تجارت چاہتے ہیں۔اس وقت پاکستان افغانستان میں تعلقات کشیدہ ہیں اورکوئی رابطہ نہیں ہے، دوبارہ جھڑپیں بھی ہوسکتی ہیں امکان کورد نہیں کیا جاسکتا، اب کوئی دو نمبری کا سوچے بھی نہیں، جیسا کیا جائے گا ویسا ہی جواب دیاجائے گا۔پاک بھارت کشیدگی کے وقت رات ڈھائی بجے پوری لیڈرشپ نے فیصلہ کیا کہ اب بھارت کو منہ توڑ جواب دیا جائے گا اور دعا کے بعد بھارت کو منہ توڑ جواب بھی دیا گیا۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی