• Dublin, United States
  • |
  • Dec, 24th, 24

شِنہوا پاکستان سروس

صنعتی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے چین کے ساتھ تعاون نا گزیر ہے،جرمن آٹو ماہرینتازترین

June 13, 2024

سٹٹگارٹ ،جرمنی(شِنہوا) جرمنی کے آٹو ماہرین  نے کہا  ہے کہ جرمنی کی آٹو صنعت کو درپیش رکاوٹوں کے خاتمے کیلئے  آٹو انڈسٹری کا چینی ہم عصر کمپنیوں کیساتھ تعاون نا گزیر ہے۔

کچھ سرکردہ جرمن ماہرین نے سٹٹگارٹ کے  قریبی  قصبے بوبلنگن میں منعقد ہونے والی   کانگریس  نیو مینوفیکچرنگ ورلڈ میں اظہار خیال  کرتے ہوئے کہا کہ جرمنی میں آٹو انڈسٹری کی تبدیلی جس کا مقصد آب و ہوا کی غیرجانبداری کو حاصل کرنا ہے، ایک مشکل کام ہے، ان اہداف کو حاصل کرنے کے لیے بین الاقوامی تعاون ناگزیر ہے۔

آئی ٹی سروسز اور کنسلٹنگ کمپنی کیپ جیمنی میں  سی او ای  انٹیلیجنٹ انڈسٹری بزنس یونٹ جرمنی کی نائب صدر لیڈیا الڈی جوہان کانگریس میں شرکت کرنے والے 400  مہمانوں میں سے ایک ہیں۔

انہوں نے شِنہوا سے ایک انٹرویو میں  کہا کہ وہ ویلیو چینز کو مربوط کرکے تیز رفتار اختراع کے چینی نقطہ نظر سے بہت متاثر ہوئی ہیں۔

فائل فوٹو: جرمنی، مرسڈیز بینز کا لوگو  کمپنی  کے سٹٹگارٹ میں واقع ہیڈکوارٹر پر دکھائی دے رہا ہے۔(شِنہوا)

انہوں نے کہا کہ چین دوسروں  کیلئے  سیکھنے کی ایک مثال ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ آٹو انڈسٹریز کی تبدیلی کو آگے بڑھانے کے لیے بین الاقوامی تعاون کی ضرورت ہے۔

آٹو انڈسٹری کے ایک جرمن محقق اور کانگریس کے شریک منتظم فرڈینینڈ ڈیوڈن ہوفر نے  چین کو دنیا کی سب سے بڑی آٹو مارکیٹ اور اختراعی ٹیکنالوجیز کی قیادت کرنے والا ملک قرار دیتے ہوئے الڈی جوہان کی بات سے  اتفاق  کیا  کہ بین الاقوامی تعاون کی سخت ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ چین بیٹریوں سے آگاہی فراہم کرنے کے طریقوں کو فروغ دے رہا ہے، جو آٹو انڈسٹری کی الیکٹرک گاڑیوں کی جانب تبدیلی کے لیے بنیادی شرط ہے۔

چین گاڑیوں میں خود کار ڈرائیونگ اور تفریحی ایپلی کیشنز میں بھی سرفہرست ہے۔مجھے لگتا ہے کہ اگر ہم اکٹھے اور مل کر کام کریں تو مستقبل بہت اچھا ہو سکتا ہے۔

فائل فوٹو:صوبہ گوئی ژو کے چھیان نان کے بویی میاؤ خود مختار پریفیکچر کی گوجیاؤ ٹاؤن شپ کے چارجنگ  سٹیشن پر نئی  توانائی  گاڑیاں چارج کی جا رہی ہیں۔(شِنہوا)

مرسڈیز بینز کے بورڈ آف مینجمنٹ کے چیئرمین اولا کیلینیئس نے ایک کلیدی تقریر میں متنبہ کیا کہ تحفظ پسندی یورپی اقتصادی خوشحالی کے لیے خطرہ بن سکتی ہے جو گزشتہ دہائیوں میں کھلی منڈی پر مبنی تھی۔ہمیں یاد کرنا چاہیے کہ بازاروں کو بند کرکے نہیں بلکہ انہیں کھول کر کس طرح یورپ نے گزشتہ دہائیوں میں معاشی خوشحالی کی ضمانت دی ہے۔