امریکہ میں امیگرنٹ ویزا، ایف ون ویزا پر آنے والے طلبا کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کے حقوق کی بات ہو تو امریکی یونیورسٹیاں حق آزادی کو دباتی ہیں۔ امریکی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق اس ویزا پر امریکہ آئے ہوئے چند طلبا بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں یہاں پہلی آئینی ترمیم کے تحت آزادی اظہار کا حق محسوس نہیں ہوا، خصوصا فلسطینیوں کے حق کے لیے بات کرنے کے معاملے میں۔امریکہ کی پہلی آئینی ترمیم اظہار کی آزادی کے حق کی ضمانت دیتی ہے، لیکن ان طلبا کے مطابق جب بات فلسطین، اور فلسطینیوں کے حقوق کی آتی ہے تو انہیں لگتا ہے کہ یہاں کی یونی ورسٹیاں حق آزادی کو دباتی ہیں۔امریکہ میں ایف ون ویزا فل ٹائم تارکین وطن طلبا کو دیا جاتا ہے اور یہ یونیورسٹی داخلے سے مشروط ہوتا ہے۔ کسی بھی قسم کی معطلی کی صورت میں متعلقہ طالب علم کو ملک سے ڈی پورٹیشن کا سامنا ہو سکتا ہے۔ واشنگٹن ڈی سی میں ایک یونی ورسٹی میں پی ایچ ڈی کی طالبہ نے، جن کا تعلق بھارت سے ہے، وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ کچھ ہی عرصہ قبل بھارت سے امریکہ پڑھنے کے لیے آئی ہیں اور انہیں یہاں آ کر محسوس ہوا ہے کہ ان کے پاس یہ آپشن نہیں ہے کہ وہ ہر معاملے پر اپنی آواز اٹھا سکیں۔ انہوں نے اس مسئلے کی حساس نوعیت کی وجہ سے اپنا نام نہ بتانے کی درخواست کی ہے۔اس سوال پر کہ وہ کون سے معاملات ہیں جن پر وہ محسو کرتی ہیں کہ وہ اظہار نہیں کر سکتیں، ان کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے تو فلسطین، اور فلسطینیوں کے حقوق کا معاملہ ہے۔ میں یہاں پر کچھ عرصہ پہلے ہی آئی اور تب سے اس مسئلے پر مظاہرے ہو رہے ہیں۔ انکے بقول مجھے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ مجھے ہر بات پر بولنے سے پہلے سوچنا پڑتا ہے۔ انہوں نے امریکہ کے نظام تعلیم اور یونیورسٹیوں پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ وہ انہی معاملات پر پی ایچ ڈی تھیسز لکھتے ہیں اور انہی یونیورسٹیوں میں یہ تھسز داخل کروائے جاتے ہیں۔
لیکن جب ان معاملات پر عمل درآمد کرتے ہوئے آواز اٹھائی جاتی ہے، تو یہ یونیورسٹیاں سب سے پہلے آزادی اظہار پر ہی وار کرتی ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے ہمارا حق اظہار یہاں بھی روکا جا رہا ہے، اور جس ملک سے ہم آئے ہیں، وہاں بھی اسے روکا جا رہا ہے۔نیویارک کی ایک یونیورسٹی میں پاکستان سے تعلق رکھنے والی ایک پی ایچ ڈی اسٹوڈنٹ نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ نہیں سمجھتیں کہ گزشتہ برس امریکہ میں رہتے ہوئے وہ ملک کی پہلی آئینی ترمیم کے تحت اپنے حق اظہار کو استعمال کر سکتی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر وہ امریکہ میں رہتے ہوئے اپنے شعوری حق کو استعمال کرتیں، تو ان کے مطابق انہیں خدشہ تھا کی یونیورسٹی انہیں معطل کر دیتی۔اس اسٹوری کے لیے اس سے قبل بھی وائس آف امریکہ نے متعلقہ طالبہ سے رابطہ کیا تھا لیکن انہوں نے امریکہ میں رہتے ہوئے اس پر بات کرنے سے انکار کیا تھا۔ اب وہ بیرون ملک ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ یونی ورسٹی ایسے تمام طلبا کو نکال رہی تھی جو فلسطینوں کے ساتھ یک جہتی میں لگائے گئے انکیمپمنٹ، مظاہروں، اور جس پر بھی طلبا کی جانب سے اینٹی سیمائٹک ہونے کا الزام لگا تھا۔ انہوں نے کہا پہلی بات تو یہ کہ ہمیں فلسطینوں کی حمایت کا اظہار کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اس کو بہت مشکل بنایا گیا کہ ہم اس کا اظہار کر سکیں، دوسرا ہمارے طلبا، ہمارے دوستوں کو کیمپس میں حراست میں لیا گیا، کچھ تشدد کا نشانہ بنے، اور جب ہم ان دوستوں کی حمایت میں گئے، تو ہمیں ان کے لیے حمایت کا اظہار کرنے کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔ان تاثرات کا اظہار ان طلبا نے ایسے موقع پر کیا ہے جب گزشتہ ماہ امریکہ کی آئی وی لیگ یونی ورسٹی کارنیل کے ایک پی ایچ ڈی طالب علم اور گریجویٹ ورکر موموڈو تال کو، کمپنیوں کی جانب سے ایک جاب فئیر کے دوران فلسطین کی حمایت میں کیے گئے مظاہرے میں شرکت کے بعد معطل کر دیا گیا ہے۔ گیمبیا میں پیدا ہونے والے اور برطانوی شہریت رکھنے والے موموڈو تال کا کہنا ہے کہ ایف ون ویزے کی وجہ سے انہیں فوری طور پر ڈی پورٹیشن کا سامنا ہے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی