ازبکستان کی اکیڈمی آف سائنسز کے ایک سینئر اسکالر نے کہا ہے کہ ازبکستان اور چین حالیہ برسوں میں ثقافتی میدان میں فعال طور پر تعاون کر رہے ہیں اور شاہراہ ریشم کی تہذیبوں کے درمیان ہزاروں سال پرانی دوستی اور تبادلوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ازبکستان اکیڈمی آف سائنسز میں سینٹر فار پروموشن آف سائنس کے ڈپٹی ڈائریکٹر عبداللہیف مشریب سیدامتووچ نے شِنہوا کو ایک حالیہ انٹرویو میں بتایا کہ "ازبکستان اور چین پوری تاریخ میں شاہراہ ریشم پر قریبی شراکت دار رہے ہیں اور انہوں نے دیرینہ اور مستحکم اقتصادی اور تجارتی تعلقات قائم کیے ہیں۔ انہوں نے قدیم شہر خیوا کی بحالی کی مشترکہ کوششوں کو دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی تعاون کی بہترین مثال قرار دیتے ہوئے کہا کہ 30 سال قبل سفارتی تعلقات قائم کرنے کے بعد سے دونوں ممالک نے معیشت اور ثقافت سمیت مختلف شعبوں میں اپنے تعلقات اور تعاون کو فروغ دینا جاری رکھا ہے۔ شاہراہ ریشم کے ہمراہ واقع قدیم شہروں میں سے ایک کے طور پر خیوا تعلیم، سائنس اور ثقافت کا مرکز رہا ہے، اور ہزاروں سال پر محیط تہذیبوں کا گہوارہ رہا ہے جس میں خیوا کے قدیم نخلستان کے اندرونی شہر اچن کالا کو 1990 میں یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔
تاہم طویل عرصے سے دیکھ بھال کی کمی کی وجہ سے کچھ قدیم عمارتوں کو مختلف درجے کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ 2014 میں ازبکستان اور چین نے مشترکہ طور پر خیوا کو محفوظ اور بحال کرنے کا فیصلہ کیا اور 2019 میں اس منصوبے کو مکمل کیا۔ سیدامتووچ کے مطابق بحالی کا کام بہت مشکل تھا جس میں گہری سائنسی تحقیق کی ضرورت تھی۔منصوبے کے آغاز میں چینی ماہرین نے خیوا کی اصل ظاہری شکل کا بہت تفصیلی مطالعہ کیا اور بحالی کا منصوبہ تیار کرنے کے لئے اس کا استعمال کیا۔ سیدامتووچ نے کہا کہ "خیوا پر بحالی کا کام ثقافتی آثار کی بحالی میں چین کے تجربے کی مکمل عکاسی کرتا ہے" ۔انہوں نے مزید کہا کہ بحالی کے عمل کے دوران، چینی ماہرین اور اسکالرز خیوا میں رہتے تھے اور بحالی کے کام کو بہتر طریقے سے انجام دینے کے بارے میں مقامی ماہرین کے ساتھ براہ راست بات چیت اور تعاون کیا۔ ازبک اسکالر نے کہا کہ "اصل کی بحالی" کے اصول کے تحت ، چینی ماہرین مقامی روایتی مواد اور تکنیک کو زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے میں کامیاب رہے تاکہ ثقافتی آثار کی ظاہری شکل تبدیل نہ ہو۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی