امریکہ میں برڈ فلو کے باعث پہلی ہلاکت رپورٹ ہوئی ہے تاہم صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ عوامی سطح پر کسی بڑے خطرے کا اندیشہ نہیں ہے۔غیرملکی خبر رساں ادارے کے مطابق جانوروں اور انسانوں میں برڈ فلو کے کیسز نے سائنسدانوں کے لیے ایک مرتبہ پھر خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ مہلک وبا کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔امریکی ریاست لوزیانا میں برڈ فلو سے ہلاک ہونے والے شخص کی عمر 65 برس تھی اور وہ دیگر بیماریوں میں بھی مبتلا تھا۔ لوزیانا میں صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ متاثرہ شخص دسمبر کے وسط سے ہسپتال میں داخل تھا جب امراض پر قابو پانے والے امریکی سینٹر (سی ڈی سی)نے اس کو ایچ فائیو این ون وائرس سے متاثر ہونے والا ملک کا پہلا کیس قرار دیا۔لوزیانا کے محکمہ صحت نے مریض کی موت کے حوالے سے جاری بیان میں کہا کہ اگرچہ عام لوگوں کے لیے خطرہ کم ہے لیکن جو لوگ پرندوں، پولٹری اور گائے کی دیکھ بھال یا اس سے منسلک کام کرتے ہیں، ان کے لیے خطرہ زیادہ ہے۔بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ پالتو اور جنگلی پرندوں کے ساتھ رابطے میں آنے سے مریض ایچ فائیو این ون وائرس سے متاثر ہو گیا تھا تاہم انسان سے کسی دوسرے انسان میں وائرس کے منتقل ہونے کے شواہد نہیں ملے۔
سال 2024 کے آغاز سے امراض پر قابو پانے والے امریکی سینٹر سی ڈی سی نے ملک بھر میں انسانوں کے برڈ فلو سے متاثر ہونے کے 66 کیسز ریکارڈ کیے ہیں۔امریکہ کی بران یونیورسٹی میں اپیڈیمالوجی کی پروفیسر جینیفر نوزو نے اے ایف پی کو بتایا کہ کافی ڈیٹا موجود ہے جس سے یہ ظاہر ہے کہ یہ وائرس مہلک ہو سکتا ہے بلکہ جن وائرس کے حوالے سے ہمیں خدشہ رہتا ہے اس سے زیادہ ایچ فائیو این ون وائرس مہلک ہو سکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ امریکہ میں جانوروں کے فارمز اور دیگر مقامات پر پھیلنے والے وائرس سے لوگ زیادہ خطرہ محسوس کرتے ہیں اور حکومت سے زیادہ سے زیادہ اقدامات کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔پروفیسر جینیفر نوزو کا کہنا ہے کہ ان کو زیادہ پریشانی اس بات کی ہے کہ وائرس کے پھیلا پر قابو نہیں پایا جا رہا اور لوگوں کو متاثر ہونے سے بچانے کے لیے مزید اقدامات کرنا اولین ترجیح ہونی چاہیے۔سال 1996 میں پہلی مرتبہ ایچ فائیو این ون وائرس کی تشخیص ہوئی تھی تاہم سال 2020 سے پرندوں میں بہت زیادہ پھیلنا شروع ہوا جبکہ دودھ دینے والے جانور بھی اس سے متاثر ہوئے ہیں۔اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت نے سال 2003 سے 24 ممالک میں برڈ فلو کے 950 کیسز ریکارڈ کیے ہیں جن میں سے زیادہ افراد چین اور ویتنام میں متاثر ہوئے۔
کریڈٹ : انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی