سٹرس کینکر کی بیماری ایک خاص بیکٹریا سے پھیلتی ہے اور دنیا میں جہاںکہیں بھی یہ بیماری حملہ آور ہوئی وہاں اس بیماری نے تیز ی سے باغات کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور دنیا کے کئی ممالک میں ہزاروں ایکڑ رقبہ پر باغات کو سٹرس کینکر کی بیماری کی وجہ سے تلف کرنا پڑا۔ ترشاوہ پھلو ں میں لیمن ، گریپ فروٹ اور مٹھا وغیرہ پر یہ بہت زیادہ حملہ آور ہوتی ہے تاہم دیگر ممالک میں سنگتروں اوربعض ترشاوہ پھلوں کی مخلوط اقسام بھی اس سے متاثر ہونے کی رپورٹس بھی ہیں۔ صوبہ پنجاب میں ترشاوہ پھلوں کے زیر ِ کاشت رقبہ تقریباً ساڑھے چار لا کھ ایکڑ ہے اورکل باغات میں سے تین لاکھ 35ہزار ایکڑ ز پر صرف کنو کے باغات ہیں ۔ کنوجو کہ دیگر ممالک کو برآمد کیا جاتا ہے اس لیے کنو کے پھل کوسٹرس کینکر کی بیماری سے بچانا بہت ضروری ہے لہذا باغبان سٹرس کینکر کی بیماری کے تدارک کیلئے ہنگامی بنیادوں پر سٹرس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے زرعی سائنسدانوں کی ہد ایات پر عمل کریں تاکہ اندرون وبیرون ممالک باغبانوں کو اپنے پھل کی صحیح قیمت مل سکے۔سٹرس کینکرکی بیماری بیکٹریا سے پیدا ہوتی ہے اس بیماری سے پتے ، شاخیں، پھل اور پودے کے دوسرے حصے متاثر ہوتے ہیں ۔بیماری کے شدید حملہ کی صورت میں پودے کی صحت اور پیداواری صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ جس سے متاثرہ پھل کی ترسیل اور قیمت انتہائی کم ہوجاتی ہے۔ برصغیرمیں یہ بیماری 1942رپورٹ ہوئی اور اب یہ بیماری دنیا کے تمام ترشاوہ پھل پیدا کرنے والے ممالک میں پائی جاتی ہے ۔ سٹرس کینکر کی بیماری معاشی اہمیت کی حامل ہے۔ ترشاوہ باغات کی یہ بیماری دنیا میں دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔سٹرس کینکر کی بیماری کی علامات میں پتوں، پتیوں، شاخوں، ٹہنیوں، کانٹے ، پھل کی ڈنڈی اور پھل کی جلد پر چھوٹے دائروں کی شکل کے بھورے رنگ کے دھبے نمودار ہوتے ہیں۔
بیماری کا شدید حملہ نئے پتوں شاخوں اور پھل پر ہوتا ہے۔ پتوں پر یہ بیماری چھوٹے ابھاروں کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔یہ ابھارپہلے گہرے سبز رنگ کے ہوتے ہیں جو بعد میں گہرے بھورے اور سخت ہو جاتے ہیں اور چھونے سے ان کی سختی واضح محسوس ہوتی ہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان بھورے رنگ کے نشانات کے اردگرد پیلے رنگ کے مردہ بافتوں کے دائرے بن جاتے ہیں۔ یہ نشان ایک سوئی کے نقطہ سے شروع ہو کر 10ملی میٹر تک بڑے ہوجاتے ہیں اور ان نشانات کے بڑھنے میں میزبان پودا، موافق موسمی حالات اور پودے کی عمر کا کردار اہم ہوتا ہے۔ بہت سے نشانات مل کر ایک بڑا قطعہ بنا لیتے ہیں جو پہلے سفید یا سرمئی مائل اور آخر کار کھردرا اور سخت ہونے کے بعد درمیان سے پھٹ جاتا ہے اور اُس سے لاکھوں کی تعداد میں سپورز نکل کر پھیل جاتے ہیں۔ پھولوں کی پتیوں اور پتے کی درمیانی شاخ پر بیماری کے حملہ کی وجہ سے نا پختہ پھل کا کیرا اور پتے گِر جاتے ہیں جس سے پودا بدشکل نظر آتا ہے۔ ٹہنیوں اور شاخوں پر بیماری کے اضافہ کی وجہ سے پودا مر جاتا ہے۔ بڑی شاخوں پر بیماری کے نشانات بے ترتیب ، کھردرے اور بہت واضح ہوتے ہیں۔ پھل کا اندرونی گودہ محفوظ رہتاہے۔ متاثرہ پھلوں کی مارکیٹ میں کوئی قدر نہیں ہوتی بیماری کے شدید حملہ کی صورت میں پھل کا کیرا ہوسکتا ہے اور پودے کی پیداواری صلاحیت کم ہونے کے علاوہ پودا سوکھ کر مر سکتا ہے۔جرثومہ متاثرہ پودوں، پتوں اور ٹہنیوں میں سرمائی خوابیدگی میں رہتا ہے متاثرہ پتوں میں بیماری کے جراثیم ایک سال تک پائے جاتے ہیں۔ شاخوں اور جلد میں یہ بیکٹریا 3 سے 6 سال تک بیماری پیدا کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔
یہ جرثومہ بیماریوں سے پاک شدہ زمین میں 52دن تک جبکہ بیماری شدہ زمین میں 7 سے 9دن تک زندہ رہ سکتا ہے۔بیماری کاپھیلائو پتوں کے قدرتی سوراخوں یا زخموں کے ذریعے ہوتا ہے۔ بیماری پھیلنے کے لیے درجہ حرارت 20سے 35 ڈگری سینٹی گریڈتک جبکہ بارش کی کثرت اور میزبان پودے کی بیرونی سطح پر تقریباََ 20منٹ تک نمی کی موجودگی ضروری ہے۔جرثومہ پہلے پودے کی بیرونی سطح کو متاثر کرتا ہے۔ یہ جرثومہ یک خلوی اور راڈ کی شکل کے ہوتے ہیں اوریہ جرثومہ کچھ گھاس کی جڑوں میں بھی رہ سکتا ہے۔بیماری کے پھیلانے میں بارشوں کے دوران چلنے والی تیز ہوائیں، حشرات اور انسان اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر ہوا کی رفتار 18کلومیٹر فی گھنٹہ ہو تو اس بیماری کے جراثیم بہت تیزی سے میلو ں تک باغات کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ مز ید برآں سٹرس لیف مائنر خصوصاََ نئی پھوٹ کے اوپر حملہ آور ہوتے ہوئے پتوں پر جو گہری سر نگیں بنا دیتا ہے اُن میں سٹرس کینکر کا بیکٹریا اکٹھا ہو جاتا ہے اورمو افق حالات ملتے ہی یہ بہت زیادہ پھیل جاتا ہے بعد میں بیماری کا پھیلائو بیماری شدہ پانی کا پتوں، شاخوں اور پھل پر گرنے سے ہوتا ہے۔ایک جگہ سے دوسری جگہ پر بیماری بذریعہ متاثرہ پودوں ، متاثرہ پیوندی شاخوں، نرسری اسٹاک ، نرسری میں کام کرنے والے مزدوروں ، اوزاروں اور باغات میں استعمال ہونے والے آلات کے ذریعے پھیلتی ہے۔ اس کے علاوہ سٹرس فیکٹریوں کے متاثرہ فضلہ کو باغات کے نزدیک پھینکنے سے بھی اس بیماری کے پھیلنے کا احتمال بڑھ جاتا ہے۔پتے، تنے اور پھل جب پختہ ہوجائیں تو ان میں بیماری کے خلاف قوت مزاحمت آجاتی ہے۔بیماری کا حملہ نئی پھوٹ آنے پر سات دنوں کے دوران ہوتا ہے۔ پھول سے پھل بننے کے ابتدائی تین مہینوں میں پھل بیماری سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ تین ماہ کے بعد ہونے والے انفیکشن میں بیماری کے چھوٹے اور نا مکمل نشانات بنتے ہیں۔ترشاوہ باغات کی مختلف اقسام میں ترشاوہ پھلوں کے کوڑھ کا حملہ گریب فروٹ اور کاغذی لا ئم پرزیادہ شدت سے ہوتا ہے ۔
تا ہم کنو کے نئے باغات پر بھی اس کا حملہ مشا ہدہ میں آیاہے ۔ چھوٹے پودوں پر بڑی عمر کے پودوں کے مقابلہ میں اس بیماری کا حملہ زیادہ ہے۔سٹرس کینکر کے تدارک کیلئے خلاف قوتِ مزاحمت رکھنے والی اقسام کاشت کریں۔بیماری سے متاثرہ پودوں کے بیماری سے متاثرہ حصوں کوکاٹ کر جلا دیں۔بیماری سے متاثرہ پودے کے پتے اکٹھے کرکے جلا دیں۔ایسی جگہ جہاں سے بیماری سے متاثرہ پودے نکالے گئے ہوں وہاں دوبارہ کم از کم دو سال بعد نئے پودے لگائیں۔نرسری میں موجود تمام دوسرے میزبان پودے تلف کردیے جائیں۔ نرسری اور باغات سے متعلقہ اوزاروں کو بیماری سے پاک رکھنے والے محلول سے دھویا جائے۔جب پودے گیلے یا نمدار ہوں تو ان میں کاشتی امور سے اجتناب کیا جائے۔لیف مائنر کا سپرے کے ذریعے تدارک کریں۔بیماری سے متاثرہ پودے کے پتوں اور شاخ تراشی کے وقت حفاظتی اقدامات کی سختی سے پابندی کی جائے۔ باغات میں سب سے پہلے سٹرس کینکر سے متاثرہ پتوں ، شاخوں اور پھل کو ختم کر یں اور اگرکسی جگہ پر اس بیماری کی شدت زیادہ نظر آئے پھر کم شدت والے بیماری کے حملہ کی طرف جاتے ہوئے پودوں کی کانٹ چھانٹ کریں اورٹہنیوں کو جلا دیا جائے ۔ کسی بھی تندرست پودے کے لیے بیماری سے متاثرہ پودوں کی شاخ تراشی کے دوران استعمال ہونے والی قینچی یا آری ہر گز استعمال نہ کریں۔مناسب کاشتی امور اور سپرے بیماری کے تدارک میں معاون ہوتا ہے ۔بیماری سے متاثرہ پودوں کے حصوں کی شاخ تراشی جرثومہ کی اثر ا نگیزی کو کمزور کردیتی ہے ۔کسی بھی قسم کی زہر استعمال کرنے سے پہلے محکمہ زراعت کے مقامی عملے سے مشورہ ضرور کریں۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی