پاکستان اکانومی واچ کے صدر ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے کہا ہے کہ پاکستان کے اہم ترین صنعتی و برامدی شعبہ ٹیکسٹائل کو کاٹن مافیا کے چنگل سے نکالا جائے۔اگر کاٹن مافیا کے خلاف کاروائی نہ کی گئی تو یہ اپنے منافع کی خاطر ملک میںسب سے زیادہ روزگار فراہم کرنے اور سب سے زیادہ برامدات کرنے والے سیکٹر کو لے ڈوبے گا۔ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے یہاں جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا کہ کپاس کی گزشتہ فصل کے موقع پر پنجاب کی ایک با اثر مافیا نے جنرز کے پاس آنے والی فصل کی بھاری مقدار خرید لی۔ جس کے بعد اس مافیا نے اپنے طریقہ واردات کے مطابق مارکیٹ میں اسکی سپلائی کم کر دی جس سے اسکی قیمتیں بڑھنے لگیں اور ٹیکسٹائل ملز مالکان کو اس بات کا اس وقت پتہ چلا جب پانی سر سے گزر چکا تھا۔ چنانچہ انھیں اصل قیمت سے بہت زیادہ قیمت ادا کر کے کپاس خریدنی پڑی جس سے انکی کاروباری لاگت بڑھ گئی ۔ کاروباری لاگت بڑھنے سے انکی پیداوار اور برامدات پر بھی اثر پڑا جبکہ بہت سے کارخانے بند بھی ہو گئے۔ ٹیکسٹائل ملز مالکان کو معمول سے زیادہ قیمت ادا کرنی پڑی تاہم کاشتکار کو اس میں کچھ نہیں ملا۔ ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے کہا کہ پاکستان میں کپاس کی پیداوار مسلسل گر رہی ہے اور سندھ اور پنجاب میں کپاس کا زیر کاشت رقبہ کم اور گنے کا بڑھ رہا ہے جسے روکنے کی ضرورت ہے کیونکہ ملک میں چینی کی پیداوار پہلے ہی ضرورت سے زیادہ ہے اور حکومت کو فاضل چینی برامد کرنے کے لئے بھاری سبسڈی دینی پڑتی ہے۔ڈاکٹر مغل نے کہا کہ حکومت پنجاب کا اس بار گندم نہ خریدنے کا فیصلہ درست ہے۔ حکومت پنجاب کے پاس22 لاکھ 70 ہزار ٹن گندم موجود ہے تو مزیدکیوں خریدی جائے۔ پنجاب کو گندم پر لیا گیا 3 سو 55 ارب روپے کاقرضہ بھی واپس کرنا ہے۔گندم کی خریداری پر ہر سال 125 ارب روپے سود بھی دیا جاتا ہے جب کہ گندم کوزخیرہ کرنے اور سنبھالنے پر ایک ارب روپے سے زیادہ لگ جاتا ہے۔گندم خریدنے سے پنجاب کے کاشتکاروں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا اور سارا مال ذخیرہ اندوز ہڑپ کر جائیں گے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی