سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس پر فیصلہ محفوظ کر لیا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ 2018 انتخابات پر انحصار نہیں کرے گی،کیا 2018 کے انتخابات درست تھے؟ ،سنی اتحاد کی کوئی جنرل سیٹ نہیں تو مخصوص نشست کیسے مل سکتی ہے؟ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ ووٹ اور ووٹرز کے حق پر کوئی دلائل نہیں دے رہا، الیکشن کمیشن اپنی نیک نیتی ثابت کرنے کیلئے ڈیٹا نہیں دے رہا کہ انتخابات شفاف ہوئے، ایک سیاسی جماعت کو انتخابی عمل سے باہر کیا گیا۔چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں فل کورٹ نے کیس کی سماعت کی۔ جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید، جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس نعیم اختر افغان فل کورٹ کا حصہ ہیں۔ سماعت کے آغاز پر سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی روسٹرم پر آگئے، انہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مختصر رہوں گا، 15 منٹ میں جواب الجواب مکمل کروں گا، آرٹیکل 218 کے تحت دیکھنا ہے کیا الیکشن کمیشن نے اپنی ذمہ داری شفاف طریقہ سے ادا کی یا نہیں؟ ثابت کروں گا الیکشن کمیشن نے اپنی ذمہ داری مکمل نہیں کی، مقف اپنایا گیا کہ سنی اتحاد کونسل نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا، مخصوص نشستوں کی لسٹ جمع نہیں کرائی۔ وکیل فیصل صدیقی نے مزید کہا کہ 2018 میں بلوچستان عوامی پارٹی نے کوئی سیٹ نہیں جیتی لیکن 3 مخصوص نشستیں ملیں، الیکشن کمیشن نے بلوچستان عوامی پارٹی سے متعلق بے ایمانی پر مبنی جواب جمع کرایا۔ فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے سامنے معاملہ سپریم کورٹ سے پہلے بھی لے کر جایا گیا تھا، الیکشن کمیشن اپنے ہی دستاویزات کی نفی کر رہا ہے، کیا یہ بے ایمانی نہیں؟ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ بھول جائیں الیکشن کمیشن نے کیا کہا؟ کیا الیکشن کمیشن کا فیصلہ آئین کے مطابق تھا؟ جس پر وکیل فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ بلوچستان عوامی پارٹی سے متعلق قانون پر مبنی تھا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن کا بلوچستان عوامی پارٹی سے متعلق مخصوص نشستوں کا فیصلہ چیلنج کیا؟ وکیل فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کہہ دیتا کہ غلطی ہوگئی، الیکشن کمیشن نے ایسا رویہ اختیار کیا جیسے بلوچستان عوامی پارٹی سے متعلق فیصلے کا وجود ہی نہیں۔ جسٹس عرفان سعادت نے سوال کیا کہ کیا بلوچستان عوامی پارٹی نے خیبرپختونخوا انتخابات میں حصہ لیا؟ جس پر وکیل کا کہنا تھا کہ بلوچستان عوامی پارٹی نے خیبرپختونخوا انتخابات میں حصہ لیا لیکن سیٹ نہیں جیتی۔ جسٹس عرفان سعادت نے کہا کہ آپ کا کیس مختلف ہے، سنی اتحاد کونسل نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا، ابھی دلائل دیں لیکن بعد میں تفصیلی جواب دیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سیاسی پارٹی اور پارلیمانی پارٹی میں فرق ہوتا ہے، پارلیمنٹ کے اندر جو فیصلے ہوتے ہیں وہ پارلیمانی پارٹی کرتی ہے، ایسے فیصلے سیاسی پارٹی نہیں کرسکتی، پارلیمانی پارٹی پولیٹیکل پارٹی کا فیصلہ ماننے کی پابند نہیں، جیسے وزیراعظم کو ووٹ دینا ہو تو پارلیمانی پارٹی پابند نہیں کہ سیاسی پارٹی کے فیصلے پر عملدرآمد کرے۔ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ آپ بالکل درست فرما رہے ہیں۔ اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ باپ پارٹی! نام عجیب سا ہے! جسٹس جمال مندوخیل کے جملے پر عدالت میں قہقہے لگ گئے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے مزید دریافت کہ اگر کوئی پارٹی باقی صوبوں میں سیٹ لے اور ایک صوبے میں نہ لے تو کیا ہوگا؟ وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ بلوچستان عوامی پارٹی نے دیگر صوبوں میں سیٹ جیتی لیکن خیبرپختونخوا میں کوئی سیٹ نہیں لی، الیکشن کمیشن کا غیر شفاف رویہ ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ چاہتے ہیں سپریم کورٹ جوڈیشل نوٹس لے؟ اگر نہیں تو ذکر کیوں کر رہے ہیں؟ آپ چاہتے ہیں کہ 2018 کے انتخابات کے حوالے سے کیس لیں تو لے لیتے ہیں لیکن سپریم کورٹ 2018 انتخابات پر انحصار نہیں کرے گی۔ وکیل فیصل صدیقی نے بتایا کہ اگر الیکشن کمیشن امتیازی سلوک کر رہا تو سپریم کورٹ دیکھے۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے دریافت کیا کہ یعنی 2018 میں الیکشن کمیشن ٹھیک تھا؟ کیا سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کی تشریح کی پابند ہے؟ آپ کو شرمندہ نہیں کرنا چاہتا، کیا 2018 کے انتخابات درست تھے؟ بعد ازاں وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ عدالت کہہ رہی تھی مداخلت کیوں کریں، میں وہ وجہ بتا رہا ہوں، عدالت الیکشن کمیشن کے غیر منصفانہ اقدامات کو مدنظر رکھے، جمعیت علمائے اسلام(ف)کے آئین میں اقلیتوں کی شمولیت پر پابندی ہے۔ اسی کے ساتھ فیصل صدیقی نے جے یو آئی(ف)کی رکنیت پر مبنی جماعتی آئین پیش کر دیا، انہوں نے مزید بتایا کہ جے یو آئی(ف)کو اقلیتی نشست بھی الاٹ کی گئی ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا جے یو آئی(ف)کو اقلیتی نشست نہیں ملنی چاہیے؟ جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ کامران مرتضی اس پر وضاحت دے چکے ہیں کہ مس پرنٹ ہوا تھا، اس پر وکیل سنی اتحاد کونسل فیصل صدیقی نے کہا کہ کامران مرتضی کی وضاحت ہوا میں ہے، جے یو آئی(ف)نے اس کی ویب سائٹ سے آئین ڈان لوڈ کیا ہے۔ بعد ازاں چیف جسٹس نے وکیل سے دریافت کیا کہ کیا سنی اتحاد کونسل میں صرف سنی شامل ہو سکتے ہیں؟ وکیل نے جواب دیا کہ سنی اتحاد کونسل میں تمام مسلمان شامل ہو سکتے ہیں، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا باقیوں کو آپ مسلمان سمجھتے ہیں؟ اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس اعتبار سے سنی اتحاد کونسل کو کوئی نشست نہیں ملنی چاہیے، سنی اتحاد کی کوئی جنرل سیٹ نہیں تو آپ کے دلائل کے مطابق مخصوص نشست کیسے مل سکتی ہیں؟ اس پر وکیل نے کہا کہ مخصوص نشستیں غیر متناسب نمائندگی کے اصول کے مطابق نہیں دی جا سکتیں، جنہیں آزاد کہا جا رہا ہے وہ آزاد نہیں ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیئے کہ آپ اپنے خلاف ہی دلائل دے رہے ہیں، وکیل نے جواب دیا کہ میں آپ کو قائل نہیں کر سکا یہ الگ بات ہے لیکن ہمارا کیس یہی ہے جو دلائل دے رہا ہوں۔
چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ کیا آپ کے دلائل مان کر نشستیں پی ٹی آئی کو دے سکتے ہیں؟ وکیل نے بتایا کہ سنی اتحاد کونسل پارلیمان میں موجود ہے، نشستیں اسے ملیں گی۔ اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ووٹ اور ووٹرز کے حق پر کوئی دلائل نہیں دے رہا، الیکشن کمیشن اپنی نیک نیتی ثابت کرنے کیلئے ڈیٹا نہیں دے رہا کہ انتخابات شفاف ہوئے، ایک سیاسی جماعت کو انتخابی عمل سے باہر کیا گیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ آرٹیکل 51 سیاسی جماعتوں کے حقوق یقینی بناتا ہے، سال 2018 کے انتخابات پر بھی سوالات ہیں، کیا وہی کچھ دوبارہ کرنے دیں کیونکہ 2018 میں بھی سوالات الیکشن کمیشن پر اٹھے تھے۔ وکیل سنی اتحاد کونسل نے بتایا کہ سنی اتحاد کونسل کے لوگ آزاد نہیں ہیں، الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی جماعت تسلیم کیا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ مخصوص نشستوں کی تقسیم کے وقت شاید سنی اتحاد والے آزاد تھے، وکیل فیصل صدیقی نے بتایا کہ مخصوص نشستوں کے وقت بھی آزاد امیدوار سنی اتحاد کا حصہ بن چکے تھے، الیکشن کمیشن کے اپنے ریکارڈ سے یہ بات ثابت شدہ ہے۔ فیصل صدیقی نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن اسی وقت کہہ دیتا آپ سنی اتحاد کونسل میں شامل نہیں ہو سکتے، الیکشن کمیشن کا مسلسل ایک ہی مقف رہتا تو بات سمجھ آتی۔ اس پر جسٹس عرفان سعادت نے ریمارکس دیئے کہ فیصل صدیقی آپ کی جماعت کو تو بونس مل گیا، آپ کی جماعت نے الیکشن نہیں لڑا اور اسی 90 نشستیں مل گئیں، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا الیکشن نارمل حالات میں اور شفاف ہوئے تھے؟ ایک بڑی سیاسی جماعت کو اپنے امیدوار دوسری جماعت میں کیوں بھیجنے پڑے؟ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ دیکھنا ہے کہ آزاد امیدواروں نے کیسے پارٹیوں میں شمولیت اختیار کی؟ پارٹی کے پارلیمانی لیڈر کو آزاد امیدواروں کی شمولیت کے حوالے سے بتانا ہوگا، آزاد امیدوار کی بھی مرضی شامل ہونی چاہیے، الیکشن کمیشن کے قوانین کے مطابق اگر کوئی سیاسی جماعت کا ممبر ہے تو اسی سیاسی جماعت کا نشان اسے ملنا چاہیے، کسی سیاسی جماعت کو چھوڑے بغیر نئی جماعت میں شمولیت نہیں ہوسکتی۔ اسی کے ساتھ سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے جواب الجواب مکمل کر لئے۔
بعدازاں آزاد امیدواروں کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے روسٹرم پر آ کر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ تحریکِ انصاف سے منسلک امیدواروں کو آزاد قرار دیا گیا، الیکشن کمیشن کے فیصلے کے مطابق ہمیں آزاد امیدوار مانا جائے گا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ایسا کوئی فیصلہ نہیں جس میں تمام امیدواروں کو آزاد قرار دیا گیا ہو۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے جمع کرائے گئے ریکارڈ کو گوہر علی خان نے نہیں مانا، گوہر علی خان نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے مکمل ریکارڈ سپریم کورٹ میں کرایا۔ آزاد امیدواروں کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میں تحریک انصاف اور کنول شوزب کی نمائندگی کر رہا ہوں، کنول شوزب بھی تحریکِ انصاف کا حصہ ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے سلمان اکرم راجہ سے سوال کیا کہ آپ کا اپنا ڈیکلیریشن بھی پی ٹی آئی نظریاتی سے ہے؟ آزاد امیدواروں کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ میں نے خود کو تحریکِ انصاف سے ڈیکلیئر کیا، پی ٹی آئی کا ٹکٹ بھی جمع کرایا، الیکشن کمیشن نے اپنا ریکارڈ دبانے کی کوشش کی، تحریکِ انصاف نظریاتی کا ٹکٹ منٹوں میں میں نے واپس بھی لے لیا تھا، ثابت کرنا چاہ رہا ہوں کہ الیکشن کمیشن نے اپنا ہی ریکارڈ دبانے کی کوشش کی، الیکشن کمیشن نے مکمل دستاویزات جمع نہیں کرائیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیس بہت اہم ہے، سنجیدہ سوالات الیکشن کمیشن کی ذمے داری پر اٹھے ہیں، الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے سامنے ریکارڈ دبانے کی کوشش کی۔ وکیل سلمان اکرم راجہ نے مزید کہا کہ الیکشن کمشین کا جمع کرایا گیا ریکارڈ قابل قبول نہیں۔ جسٹس شاہد وحید نے ریمارکس دیئے کہ کسی زمانے میں حکومت اور آئینی ادارے نیک نیتی سے فریق بنتے تھے، اب تو الیکشن کمیشن مقدمہ ہر صورت جیتنے آیا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ آپ کا موقف ہے پی ٹی آئی میں ہوتے ہوئے سنی اتحاد میں جانا درست ہے؟ وکیل سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن نے غلط فیصلے کے ذریعے آزاد قرار دیا، آزاد قرار پانے پر سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے دریافت کیا کہ کیا پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں نہیں چاہیے؟ وکیل نے بتایا کہ مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کی بنتی ہیں، پارٹی میں شمولیت کیلئے جنرل نشست ہونا لازمی قرار دینا غیرآئینی ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ کیا عدالت کو انتخابی عمل میں ہونے والی غلطیوں کی تصحیح نہیں کرنی چاہیے؟ وکیل سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ عدالت آئین پر عملدرآمد کیلئے کوئی بھی حکم جاری کر سکتی ہے۔ اسی کے ساتھ عدالت میں مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت مکمل ہوگئی، سپریم کورٹ کے فل کورٹ بنچ نے فیصلہ محفوظ کر لیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ فیصلہ کب سنایا جائے گا ابھی کچھ نہیں کہہ سکتے، فیصلہ سنانے سے متعلق آپس میں مشاورت کریں گے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی