موسمیاتی تبدیلی اتھارٹی کے قیام سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے اب تک اٹھائے گئے حکومتی اقدامات سے عدالت مطمئن نہیں ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینج نے کیس کی سماعت کی، وزیر اعظم شہباز شریف کی کوآرڈینیٹر برائے موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی رابطہ رومینہ خورشید عدالت میں پیش ہوئیں۔ جسٹس منصور علی نے رومینہ خورشید سے مکالمہ کیا کہ آپ بھی موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے اقدامات پر تفصیلی رپورٹ دیں، اب تک اٹھائے گئے اقدامات سے عدالت مطمئن نہیں ہے، اگلی سماعت تک تفصیلات جمع کرائیں۔ دورران سماعت چیف سیکریٹری خیبرپختونخوا نے موسمیاتی تبدیلی پالیسی 2024 عدالت میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ 195 منصوبوں کے لیے فنڈز مختص کیے گئے، بیشتر منصوبے مکمل ہوچکے ہیں۔ دوران سماعت حکومت بلوچستان نے موسمیاتی تبدیلی پالیسی 2024 عدالت کے سامنے پیش کر دی، جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ رپورٹ کے مطابق جون 2024 میں پالیسی بنائی گئی، اب تک کیا اقدامات اٹھائے گئے ہیں؟ چیف سیکرٹری بلوچستان نے عدالت کو بتایا کہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے 34 ارب 60 کروڑ کے فنڈز مختص کیے گئے ہیں۔ انہوں نے عدالت عظمی کو بتایا کہ پالیسی کے تحت سرکاری اسکولوں اور ٹیوب ویلز پر سولر سسٹم نصب کیا گیا ہے، پانی کے حوالے سے بلوچستان میں اس وقت 8 سے 10 منصوبوں پر کام جاری ہے، وفاقی حکومت کے تعاون سے بلوچستان میں 141 ارب روپے سے 19 ڈیم بنائے جارہے ہیں۔ سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے خیبرپختونخوا کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات پر تعریف کی جب کہ اٹارنی جنرل نے وفاقی حکومت کی موسمیاتی تبدیلی سے متعلق پالیسی 15 اگست تک مکمل کر کے جمع کرانے کی مہلت مانگ لی۔ سندھ اور پنجاب نے گزشتہ روز موسمیاتی تبدیلی پالیسی اور اقدامات سے متعلق عدالت کو آگاہ کیا تھا، سپریم کورٹ نے کیس کی مزید سماعت 15 اگست تک ملتوی کردی۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی