سندھ ہائیکورٹ نے سندھ میں سرکاری ملازمتوں پر پابندی سے متعلق کیس کی سماعت 13 مئی تک ملتوی کردی۔ سندھ میں سرکاری ملازمتوں پر پابندی سے متعلق کیس کی سماعت سندھ ہائیکورٹ میں ہوئی جہاں طرفین کے وکیل پیش نہ ہوئے جبکہ سرکاری وکیل عدالت میں حاضر تھے ۔ دوران سماعت عدالت کا کہنا تھا کہ اگر بھرتیاں قانونی تھیں تو متعدد ڈپٹی کمشنرز نے یہ کام کرنے سے انکار کیوں کیا؟ کیا ہم یہ بھی بتائیں کہ کس کا ڈپٹی کمشنر نے ایسا کرنے سے منع کیا ؟ یہ کیا طریقہ ہے کہ حکومت جاتے جاتے نوکریاں بانٹتی جائے؟ جائیں ڈپٹی کمشنر کے دفتر اور بلینک اپائنٹمنٹ لیٹر لے لیں۔ عدالت نے سوال اٹھایا کہ کیا اب سیاسی کارکن کا کام نوکریاں بیچنا رہ گیا ہے؟، میں فلاں تعلقے کا سیکرٹری ہوں مجھے دس نوکریاں دیدیں، میں صدر ہوں مجھے پندرہ دے دیں۔ عدالت کا کہنا تھا کہ اگر معاشرے کو بہتر کرنا ہے تو ہر ایک کو اسکا حصہ دینا ہوگا، اگر یہ سوچ لیا ہے کہ ہمارے بچے باہر پڑھیں گے اور وہیں رہیں گے تو دوسری بات ہے، اگر وطن چھوڑنا نہیں چاہتے تو میرٹ کو اپنائیں۔ سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ عدالت نے سرکاری نوکری دینے کے لیے جو ایس او پیز مقرر کیے ہیں ان کے مطابق کارروائی کی اجازت دی جائے۔ عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ نئی حکومت کی تشکیل ہوچکی ہے، اگر شفاف طریقے سے ملازمتیں دی جائے تو کوئی اعتراض نہیں۔ عدالت نے ایم کیوایم کی درخواست پر اگست 2023 میں سندھ میں سرکاری ملازمتوں پر حکم امتناع جاری کیا تھا ۔ عدالت کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ آپ سمجھتے ہیں ہم کمروں میں بیٹھے ہیں ہمیں کچھ خبر نہیں ، ہمیں نام، آسامیوں کی تفصیلات سمیت خطوط موصول ہوتے ہیں، محکمہ تعلیم میں این ٹی ایس پاس کرنیوالوں کو دس سال سے نوکریاں نہیں ملیں۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی