i پاکستان

رواں سال اب تک 1061 پاکستانی گریجوایٹس نے امریکی ریزیڈنسی پروگرامز میں جگہ حاصل کی ہے ،پی ایم ڈی سیتازترین

April 10, 2025

پاکستانی ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل سٹاف دیگر ممالک کے علاوہ بڑی تعداد میں امریکہ جانے میں کامیاب ہو رہا ہے۔پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال کے دوران اب تک 1061 پاکستانی گریجوایٹس نے امریکی ریزیڈنسی پروگرامز میں جگہ حاصل کی ہے۔ اس کے علاوہ گذشتہ سال 534 اور 2022 میں 314 پاکستانی گریجوایٹس نے ان پروگرامز میں کامیابی حاصل کی تھی۔ان اعداد و شمار کی روشنی میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستانی طبی عملہ امریکہ منتقل ہونے کو ترجیح کیوں دے رہا ہے، اور اس منتقلی کا طریقہ کار کیا ہے؟ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستانی طبی عملہ بہتر معاشی مواقع، عالمی معیار کی طبی تربیت اور روشن مستقبل کے لیے امریکہ کا رخ کرتا ہے۔ ساتھ ہی امریکہ کی امیگریشن پالیسیز اور صحت کے شعبے میں مستقل طلب بھی اس رجحان کو مزید تقویت دے رہی ہے۔ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے صدر ڈاکٹر رضوان تاج نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے میڈیکل کالجوں سے فارغ التحصیل ڈاکٹرز امریکہ میں ریزیڈنسی پروگرامز میں کامیابی حاصل کر رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ان کامیاب امیدواروں کی اکثریت پبلک سیکٹر کے میڈیکل کالجوں سے فارغ التحصیل ہے، جس کی وجہ پی ایم ڈی سی کی طرف سے ملک میں طبی تعلیم کے معیار کو برقرار رکھنے کے لیے کیے گئے اقدامات ہیں۔

ڈاکٹر رضوان تاج نے کہا کہ امریکہ میں ریزیڈنسی کے حصول کا عمل انتہائی مشکل اور مسابقتی ہے، اس میں صرف وہی امیدوار کامیاب ہوتے ہیں جو تعلیمی میدان میں غیر معمولی کارکردگی دکھاتے ہیں اور سخت امریکی میڈیکل لائسنسنگ امتحانات (USMLE) میں کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ اسلام آباد میں مقیم امیگریشن قوانین کے ماہر ڈاکٹر نور حیدر کے مطابق پاکستانی طبی عملے کی امریکہ منتقلی ان کے بہتر مستقبل اور امریکہ کی مقامی ضرورت دونوں کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ امریکہ میں ہیلتھ کیئر کے شعبے میں تنخواہیں پاکستان کی نسبت کئی گنا زیادہ ہیں۔ پاکستانی ڈاکٹرز اور نرسز وہاں بہتر معیارِ زندگی، گھر بنانے، اور بچوں کو معیاری تعلیم دلوانے کے لیے جاتے ہیں۔علاوہ ازیں امریکہ کے ہسپتال جدید مشینری اور طبی سہولیات سے لیس ہوتے ہیں، اور بہت سے پاکستانی ڈاکٹرز تحقیق، سپیشلائزیشن اور جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ کام کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ امریکہ میں طبی ماہرین کے لیے خاص امیگریشن پالیسیز موجود ہیں، جیسے کہ ایچ -ون بی (H-1B ) یا ای بی (EB) ویزا کیٹیگریز، جو اہل ڈاکٹروں اور نرسز کو مستقل رہائش کے مواقع فراہم کرتی ہیں۔امیگریشن ماہرین کے مطابق امریکہ میں طبی عملے کی ضرورت روز بروز بڑھ رہی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ملک کے عمر رسیدہ افراد کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی ہے، جسے زیادہ طبی نگہداشت کی ضرورت ہے۔

ماہرین کے خیال میں اس کے علاوہ امریکہ کے کئی علاقوں خصوصا دیہی اور کم آبادی والے علاقوں میں ڈاکٹروں اور نرسز کی کمی شدید مسئلہ بن چکی ہے۔کورونا وائرس کے بعد صحت کے شعبے پر دبا مزید بڑھا ہے، اور بہت سے تجربہ کار ڈاکٹرز اور نرسز ریٹائرمنٹ کی عمر کے قریب ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکی میڈیکل سکولز چونکہ اس خلا کو پر کرنے کے لیے مطلوبہ تعداد میں گریجوایٹس فراہم نہیں کر پا رہے، اس لیے امریکہ پاکستان، انڈیا اور فلپائن جیسے ممالک سے ماہر طبی عملہ بھرتی کر رہا ہے تاکہ صحت کے نظام کو مستحکم رکھا جا سکے۔امریکہ میں میڈیکل ریزیڈنسی پروگرام کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے؟امریکہ میں میڈیکل ریزیڈنسی پروگرام کے لیے پاکستانی یا دیگر غیرملکی ڈاکٹروں کو مخصوص معیار پر پورا اترنا ہوتا ہے۔ سب سے پہلے امیدوار کے پاس تسلیم شدہ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس یا مساوی ڈگری ہونا ضروری ہے۔اس کے بعد انہیں یونائیٹڈ سٹیٹس میڈیکل لائسنسنگ اگزامینیشن کے سٹیپ ون اور سٹیپ ٹو سی کے امتحانات پاس کرنا ہوتے ہیں جو بنیادی اور کلینکل طبی علوم پر مشتمل ہوتے ہیں۔ان امتحانات کی کامیابی کے بعد ایجوکیشنل کمیشن فار فارن میڈیکل گریجوایٹس سے سرٹیفیکیشن حاصل کرنا لازمی ہے، جو امریکی میڈیکل سسٹم میں شمولیت کے لیے بنیادی شرط ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ میں کلینکل تجربہ، امریکی ڈاکٹروں سے سفارش نامے، اچھے انٹرویو، اور انگریزی زبان میں مہارت بھی اہم عوامل ہیں۔

کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی