مشہور ترک ڈرامے ارطغرل غازی سے بین الاقوامی شہرت حاصل کرنے والے ترک اداکار جلال آل/ عبد الرحمان غازی نے کہا ہے کہ پاکستان اور ترکیہ یک جان دو قالب ہیں،دونوں ممالک مصیبت کی گھڑی میں سب سے پہلے ایک دوسرے کیلئے آگے بڑھتے ہیں۔ارطغرل ڈرامے کو دنیا بھر سمیت پاکستان میں جو پذیرائی ملی وہ ناقابل فراموش ہے۔ جب بھی پاکستان آیا خود کو ہمیشہ اپنے گھر میں محسوس کیا۔جلد دوبارہ پاکستان کا دورہ کروں گا۔پاکستان کی شوبز انڈسٹری نے شاندار کام کیا ہے۔پاکستانی ڈرامے اپنے مضبوط کہانی اور بہترین عکس بندی کی وجہ سے پسند کیے جاتے ہیں۔پاکستانی ڈراموں میں کام کرنے کی آفر آئی تو میں ضرور غور کروں گا۔ استنبول میں ترک پاک ویمن فورم کی پریزیڈنٹ شبانہ ایاز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان اور ترکیہ شوبز ،ڈراموں سمیت مختلف شعبوں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر سکتے ہیں۔ میں اپنے پاکستانی بھائیوں کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ اپنے برادر ملک ترکیہ میں مختلف شعبوں میں بہت سے منصوبے شروع کر سکتے ہیں اس سلسلے میں ہم آپ کی زیادہ سے زیادہ رہنمائی کرنے کی کوشش کریں گے۔ ہم برے وقت کے دوست ہیں لیکن ہمیں اچھے وقت میں دوست بننے کی ضرورت ہے۔ ہم خطہ کشمیر خصوصا آزاد کشمیر کے ساتھ فلاحی کاموں کے لیے کچھ ارادے اور منصوبے رکھتے ہیں۔ پاکستان بہت خوبصورت ملک ہے بہت ہی خاص جغرافیے والا ملک، میں ترک عوام کو کہتا ہوں کہ وہ ضرور جا کر پاکستانی عوام سے ملے دیکھیں وہ کتنے گرم جوش ہیں وہ ترکیہ سے کتنی محبت کرتے ہیں۔اداکار نے کہا کہ میرا پاکستان کا پہلا دورہ تقریبا 4 سال پہلے ہوا تھا،جب بھی پاکستان گیا پہلے سے اچھی یادیں لے کر آیا،میں ایک بار پھر دورہ پاکستان کی تیاری کر رہا ہوں۔
پاکستان میں ایسے بے شمار لوگ ہیں جنہیں ہم اپنے بچپن سے پسند کرتے آئے ہیں، جنید جمشید،ہم ان سے پیار کرتے ہیں۔ میں ترک شاعر مہمت عاکف ارسوئے کا مداح ہوں، وہ ہمارے قومی ترانے استقلال مارش کے مصنف ہیں ،ان کا پاکستان کے قومی شاعر علامہ اقبال سے بھی تعلق تھا ،پاک اور ترکیہ کے در میان یہ رشتہ بھی مضبوط تعلق کی بنیاد بن سکتا ہے۔پاکستان کے شمالی علاقے، سوات کا علاقہ، ایبٹ آباد ،بلوچستان میں، بہت خوبصورت جغرافیائی علاقے ہیں جو ترک سیاحوں کی منزل ہو سکتے ہیں۔ دونوں ممالک کے اولیاء کا صدیوں پرانا تعلق دونوں قوموں کو جوڑتا ہے۔ ترک اداکار نے اپنے پسندیدہ کھانوں کے حوالے سے بتایا کہ انہیں پاکستانی کھانوں میں بٹر چکن اور بریانی بہت پسند ہے۔ ترکیہ اور پاکستان کے کھانوں میں اتنا فرق نہیں ہے۔ ہم ترک لوگ بھی مصالحے پسند کرتے ہیں۔لیکن کچھ علاقے ایسے ہیں جو مصالحے زیادہ پسند نہیں کرتے ہیں۔ہمارے پاکستانی بھائی، ماشااللہ، انہیں زعفران پسند ہے، انہیں مصالحہ دار کھانا پسند ہے۔ میں کبھی نہیں بھولوں گا، کراچی میں ایک گلی تھی،ہمارے استقلال ایونیو کی طرح، ہم اس سڑک پر ایک خوبصورت ریستوران گئے۔تقریبا 100-200 میٹر تک دونوں طرف سٹریٹ فوڈز ہیں۔ جیسے ہی ہم گلی میں داخل ہوئے،مصالحوں کی حیرت انگیز خوشبو آنے لگی۔میں نے نیویارک میں کچھ ایسا ہی منظر دیکھا تھا ۔ آپ جانتے ہیں کہ مصالحہ دار کھانا آپ کے جسم پر کس طرح پسینہ کرتا ہے۔ اگرچہ مجھے مصالحہ دار کھانا بہت پسند ہے۔ہم نے ہلکے سے مصالحہ دار کھانے کا آرڈر دیا۔مجھے پاکستانی چائے کے خاص ذائقے نے بھی بہت متاثر کیا۔ پاکستان اور ترکیہ کے در میان مشترکہ خصوصیات کے حوالے سے ترک اداکار نے شبانہ ایاز کو بتایا کہ ہمارے زبان میں بہت سارے مشترک عام الفاظ ہیں۔لہذا، ہم دونوں ملکوں میں بہت زیادہ ثقافتی اتحاد ہے۔
مزید برآں، اپنی تاریخی ساخت کے ساتھ، پاکستان برصغیر پاک و ہند، جزیرہ نما ہندوستان تقریبا 400 سال تک مغلوں کی حکومت میں رہا۔ مغل دراصل ترک تھے۔ اس نقطہ نظر سے، ہم وہاں ترکیہ کی ثقافت، مسلم ترک ثقافت کا ایک گہرا اثر دیکھتے ہیں۔ پاکستان میں زیادہ تر سنی مسلمان ہیں، اور بھی مسلک ہیں، یہ سب ہمارے بھائی ہیں۔ لیکن اعتقاد کے لحاظ سے چونکہ ہمارے ملک کے لوگ سنی اسلام یعنی فقہ حنفی کی طرف زیادہ مائل ہیں، خاص طور پر جانشین کی حیثیت سے، پاکستان میں میں نے مولانا جلال الدین رومی اور اناطولیہ کے تصوف کے دوسرے بڑے استادوں کے صوفی پہلو سے بھی بہت محبت دیکھی ہے۔ اپنے فنی سفر کے حوالے سے ترک اداکار نے شبانہ ایاز کو سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ تقریبا 25 سال پہلے، جب میں ہائی اسکول میں تھا تو میں نے اسکول میں اپنے اساتذہ کی حوصلہ افزائی سے تھیٹر میں کام شروع کیا۔یہ ایک مشغلہ تھا۔ اس کے بعد میں نے سوچا کہ کیا میں اسے پروفیشن میں بدل سکتا ہوں۔میں برصہ میں پلا بڑھا ہوں۔ میرا آبائی شہر آرٹیوین ہے۔ میں مشرقی بحیرہ اسود کے علاقے سے ہوں۔ اس وقت یقینا یہ ایک مشغلہ تھا۔ اس کے بعد ہم استنبول آگئے،برصہ میں تعلیم ناکافی تھی۔ کاروبار سب کچھ استنبول میں تھا۔ میں نے یہاں آکر سنیما اکیڈمی میں تعلیم حاصل کی۔ میں نے پڑھائی مکمل کی۔ لہذا، میرے شوق نے آہستہ آہستہ اداکاری، اسکرین رائٹنگ اور پروڈکشن پر بہت زیادہ توجہ مرکوز کردی تھی میں دونوں کو ایک ساتھ جاری رکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔میں نے ایک فلم فتح 1453 میں بھی کام کیا۔میں نے وہاں اداکاری کی۔ کچھ اور ڈراموں میں اداکاری کی۔ ایک اور فلم کی جو 2010 میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس کے بعد میں برصہ واپس آیا۔ تقریبا دو سال میں اپنی فیملی کے ساتھ رہا۔ پھر ارتغرل سیریز کے لیے ایک پیشکش آئی۔۔ اس ڈرامے نے مجھے بہت پرجوش کیا۔ یہ واقعی ایسی چیز تھی جس نے میری روحانی دنیا کو متحرک کیا۔ میں ایک ایسا انسان ہوں جو اپنے پرچم کے سائے میں رہنے کی کوشش کرتا ہے۔
اپنی ریاست کا وفادار، میں اپنی روحانی اقدار کے ساتھ وفادار رہنے کی کوشش کرتا ہوں، اور جب میں نے پروڈکشن ٹیم بلند کا خلوص، کام کے بارے میں ڈائریکٹر کا جذباتی رویہ، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ کام نہیں بلکہ ایک جذبہ تھا، تو ہم نے کہا، ہم اس ڈرامے کو دل و جان سے قبول کرتے ہیں۔
پاکستانی ڈراموں کو پسند کرتے ہیں کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہاں میں نے پاکستانی ڈرامے ضرور دیکھے ہیں۔ خدا اور محبت ، مجھے واقعی یہ ڈرامہ دیکھ کر بہت مزہ آیا۔ اس میں بہت ڈرامائی کہانی تھی۔ کسی حد تک ناممکن محبت۔ میرے بھائی فیروز خان کو اس ڈرامے میں بہترین اداکاری کرنے پر سلام۔ میرے بہت سے پاکستانی اداکار دوست ہیں۔ جب وہ استنبول آتے ہیں تو میں ان سے خصوصی طور پر ملتا ہوں۔ اور جب میں پاکستان جاتا ہوں تو وہ مجھ سے ملتے ہیں۔ ان میں سے ایک فیروز حان ہے۔عمران عباس ہے۔ ہمایوں سعید عدنان صدیقی اور بہت سے دوست پاکستان کی ڈرامہ انڈسٹری میں ہیں ۔پاکستان اور ترکیہ کی مشترکہ پروڈکشن صلاح الدین ایوبی پر تبصرہ کرتے ہوئے ترک پاک ویمن فورم کی ہیڈ شبانہ ایاز کو جلال آل نے بتایا کہ ڈرامہ صلاح الدین ایوبی سیریز ایک بہت ہی خوبصورت ترکیہ اور پاکستان کا مشترکہ منصوبہ ہے ۔یقینا دیگر پاکستانی پراجیکٹس کی شوٹنگ بھی ترکیہ میں ہو سکتی ہے۔ ہم اپنے پاکستانی بھائیوں کو بھی دعوت دیتے ہیں۔ہمارے دوست اور پروڈیوسرز جو ترکیہ میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں یا ترکیہ میں پروجیکٹ شوٹ کرنا چاہتے ہیں وہ اس ملک میں محفوظ طریقے سے سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔صلاح الدین ایوبی منصوبہ ایک بہت ہی خاص منصوبہ ہے۔ یہ غزہ میں ہمارے مسلمان بھائیوں کے موجودہ حالات کے ساتھ بھی موافق ہے، جو بدقسمتی سے نسل کشی کا شکار ہوئے ہیں۔ ہم پاکستانی سامعین،ناظرین کے مشکور ہیں۔میرے خیال میں بہت سے منصوبوں پر کام کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں بھی شوٹنگ کی جا سکتی ہے۔ میں خاص طور پر اپنے برادر ملک، اپنے پاکستانی بھائیوں کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ اپنے برادر ملک ترکیہ میں مختلف شعبوں میں بہت سے منصوبے بنا سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہم آپ کی زیادہ سے زیادہ رہنمائی کریں گے۔ ہمیں صلاح الدین ایوبی ڈرامے کی کامیابی پر بہت خوشی اور فخر ہے۔ ہم خاص طور پر مسٹر ایمرے کونک کو سلام کرتے ہیں، جو ترکیہ میں ہمارے ڈائریکٹر اور پروڈیوسر ہیں۔پاکستان کے پروڈیوسر ڈاکٹر کاشف انصاری اور ڈاکٹر جمشید علی شاہ بھی اس کامیاب پروڈکشن پر مبارکباد کے مستحق ہیں ۔ صلاح الدین ایوبی سیریز ترکیہ اور پاکستان کا مشترکہ کام تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ثقافت، آرٹ اور سیریز موثر ہیں، اور گزشتہ 5-6 سالوں میں بھائی چارہ مضبوط ہوا ہے اور مشترکہ پروڈکشنز بن رہی ہیں۔ میں مستقبل پر یقین رکھتا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ دیگر پروجیکٹس میں ہمیں اپنے پاکستانی اداکار بھائیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملے گا۔ترک اداکار نے پاکستان اور ترکیہ کے در میان معاشی میدان میں مزید تعاون اور ایک دوسرے کے مسائل کے حل کیلئے موثر انداز میں کوششوں کی ضرورت پر زور دیا۔انہوں نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ پاکستان اور ترکیہ مسلم امہ کے لیڈر کے طور پر مزید مضبوط ہوں گے۔ آخر میں انہوں نے شبانہ ایاز کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ مکمل باحجاب رہ کر اپنے شعبے میں کام کرنے اور ترکیہ و پاکستان کے درمیان اخوت ،بھائی چارے بڑھانے کی ان کی کوششیں قابل ستائش ہیں ۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی