تحریر:آصفہ زہرہ
جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے تب سے یہی سنا ہے کے پاکستان کو سخت چیلنجز کا سامنا ہے کبھی سرحدوں کی نگرانی ،کبھی دہشتگردی کی عفریت اورکبھی دشمن کی دراندازی ۔ پاکستان نے چار جنگیں لڑ لیں، دشمن کے دانت کھٹےکیے، بدترین دہشتگردی کوشکست دی اور اس چیلنج سے نبرد آزما ہونے کےلیے پاک افواج کو مذید مستحکم اور مضبوط بنانے کے اقدامات کئےجس نےپاک فوج کودنیاکی دس بہترین افواج میں سےایک بنادیا پاکستان نے ایٹم بم بھی بنا لیا اور پاکستان کی چوکس فوج بحری،بری اورفضائی سرحدوں کی نگہبان ہے۔اسی طرح کرونا وائرس جیسے منہ زور دشمن ،جب حملہ آور ہوا تب پاکستان کی میڈیکل آرمی (ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل) نے اس محاذ پہ ڈٹ کے مقابلہ کیا اور حکومت نے خطیر بجٹ مختص کیا۔ لیکن خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے، آج بھی پاکستان کو سخت ترین چیلنج کا سامنا ہے اوراس بار خطرہ زیادہ مہلک ہے اس دشمن کو شکست دینے کےلیےناجان نثار کرنے والی فوج کام آئے گی نا ہی اس معاملے پر کوئی کھلی یا خفیہ سفارت کاری کارگر ہو گی۔ اس خطرے کا نام موسمیاتی تبدیلی ہے جس سے نمٹنے کہ لئے طویل مدتی منصوبہ بندی،عزم، اور سالانہ بجٹ میں خطیر رقم مختص کرنے کی بھی ضرورت ہے اس دشمن سے نمٹنے اور بچنے کے لئے آتی جاتی حکومتوں سےبالاترہوکرپالیسی کےتسلسل کی ضرورت ہے۔ موسمیاتی تبدیلی سے مراد درجہ حرارت اور موسموں میں طویل مدتی تبدیلی ہے موسمیاتی تبدیلی مخصوص جگہوں کی آب و ہوا کے مربوط نظام کے "اوسط" کوبدل دیتی ہے جیسے گرمی کی شدت اور دورانیےمیں اضافہ ہونا، بارشوں کا بےموسم ہونا، کبھی سیلاب توکبھی خشک سالی، کبھی سخت سردی توکبھی بے موسم برسات کاآنا، یہ سب موسمیاتی تبدیلیوں کا شاخسانہ ہے۔اگرچہ آب و ہوا کی تبدیلی قدرتی ہو سکتی ہےلیکن انسانوں کی دخل اندازی نےآج انسانیت کو سنگین ہنگامی حالت سےدوچارکیاہے انسانی ایجادات اورترقی نےانسان کےلیےآسانی کےساتھ ایک بڑےخطرےکودعوت دےدی ہے۔
انسانی ایجادات نے گرین ہاؤس گیسوں جیسے میتھین اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کوبڑھادیاہےجس نےموسمیاتی تبدیلی کوجنم دیا ہے جوہماری زمین اوراس پربسنےوالےجانداروں کی بقاکےلیےخطرہ ہے۔یہاں یہ بات مدنظر رکھنی ہوگی کے کاربن کے اخراج میں پاکستان کاحصہ محض 9۔0 فیصد ہے جبکے دنیا کے سب سے زیادہ کاربن اخراج والے ممالک میں بالترتیب چین 26 فیصد اخراج کے ساتھ پہلے، امریکا 11 فیصد اخراج کے ساتھ دوسرے، بھارت 7 فیصد اخراج کے ساتھ تیسرے، یورپی یونین6 فیصد کے ساتھ چوتھے اور روس 8۔3 کے ساتھ پانچویں نمبر پر ہے لیکن موسمیاتی تبدیلی نے کم آلودگی پھیلانےوالے ملکوں میں تباہی مچا رکھی ہے۔ پاکستان اقوام متحدہ کی ملکی رہائشی رپورٹ 2023 گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس میں پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے لیےپانچواں سب سے زیادہ خطرے سے دوچار ملک ہے۔ اس کا اندازہ گزرے پندرہ سالوں میں پاکستان میں آئے سیلابوں اور خشک سالی بحران سے لگایا جا سکتا ہےجسمیں ہزاروں جانیں گئیں، کروڑوں لوگ بےگھرہوئے اور نقصانات کا تخمینہ کھربوں ڈالرہے۔ موسمیاتی تبدیلی ،پاکستان میں انتہائی واقعات کا باعث بن رہی ہے جس کا اندازہ سال2022 کے صرف نو ماہ میں سات بڑے موسمیاتی شدید واقعات سے لگایا جا سکتا ہے جو جنوری اور ستمبر کے درمیان رونما ہوئے۔ جنوری میں مری میں ناصرف برف باری ہوئی بلکہ گذشتہ ریکارڈ ٹوٹ گئے، مارچ سے جون کے درمیان ہیٹ ویو نے گرم ترین دنوں کا ریکارڈ قائم کر دیا، گلگت بلتستان میں مئی کے مہینے میں گلوف کے واقعات ہوئے۔ دوسری طرف مئی جون میں ہی ملک کے ایک حصے میں خشک سالی کا آغاز ہو گیا تودوسری طرف جون میں پری مون سون کےآغازپر ہی برف باری کے ساتھ ہی موسلا دھار بارش ہوئی اور پھر جولائی سے ستمبر شدید سیلاب نے ملک کے طول وعرض میں تباہی پھیلا دی۔ یہ دن بہ دن بڑھتے موسمیاتی واقعات اور انکی بڑھتی شدت دراصل وہ خطرہ ہے جس نے پاکستان کی سالمیت کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
اس خطرے سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو اب اپنے سالانہ بجٹ میں رقم مختص کرنا ہو گی۔ جیسے ایک خطیر رقم دفاعی بجٹ، انفرااسٹرکچر، صحت و تعلیم کے لیے رکھی جاتی ہے اب موسمیاتی فنانس رکھا جائے۔ مالی سال کے بجٹ میں موسمیاتی فنانس مختص کرنا محض بجٹ کا حصہ نہیں ہوگا بلکہ یہ ملک کے مستقبل میں ایک اہم سرمایہ کاری بھی ہو گی۔ بےترتیب موسمی واقعات جیسے سیلاب، خشک سالی،بے وقت بارشوں اور سمندر کی بڑھتی ہوئی سطح نے زراعت، بنیادی انفرااسٹرکچر،آبی وسائل سمیت معیشت کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ یہ اثرات معیشت کو مفلوج کررہے ہیں اورموسمیاتی فنانس دراصل پاکستان کو ابتدائی وارننگ سسٹم، سیلاب سے بچاؤ، خشک سالی سے بچنے والی فصلوں اور صاف توانائی کے بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے ضروری ہے تاکہ مستقبل میں نقصانات کو کم کیا جا سکے۔ ہمارے سامنے جنوبی ایشیا کے مختلف ممالک کی مثالیں ہیں جنھوں نے بروقت فیصلے کیے اور موسمیاتی فنانس کو بجٹ کا حصہ بنایا ہے۔ان میں بھارت، نیپال، بھوٹان، سری لنکا، بنگلہ دیش شامل ہیں۔بنگلہ دیش نے نیشنل ایڈیپٹیشن پلان سال2050-2023 بنایا جسکے مطابق اس نےموسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے 27 سالوں میں 230 بلین ڈالر کی اہم سرمایہ کاری کی منصوبہ بندی کی ہے۔ بلین ڈالرکی خطیررقم سال23-2022ٓ کے لیےرکھی گئی۔90 ایسے سیکٹرز ہیں جسے ترجیحات میں شامل کیاگیا بنگلہ دیش ماحولیاتی فنڈز اور ترقیاتی شراکت داروں جیسے بین الاقوامی ذرائع سے سالانہ 6 بلین ڈالر بھی حاصل کرے گا۔یہ منصوبہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے بنگلہ دیش کے سنجیدہ عزم کو ظاہر کرتا ہے۔
جبکےنیپال نے موسم سے متعلق قومی بجٹ مختص کرنے میں گزرے 10سالوں میں تین گنا سے زیادہ اضافہ کیا ہے۔نیپال میں موسمیاتی فنانس کے لیے مختص قومی بجٹ کا حصہ تقریباً 3 گنا بڑھ گیا ہے۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق صرف پچھلے پانچ سالوں میں نیپال کا موسمیاتی بجٹ مالی سال 2017-18 میں 3.2 بلین امریکی ڈالر سے بڑھ کر مالی سال 2022-23 میں 5.2 بلین امریکی ڈالر ہو گیا ہے۔ رپوٹ میں بتایا گیا ہے کہ موسمیاتی واقعات نےاس رجحان میں اضافہ کیا ہےسالانہ بجٹ کا 37فیصدحصہ ایک بہت بڑی رقم ہے جسےنیپال موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے اورپائیدارمستقبل کےلیے خرچ کرے گا۔ وہیں بھارت نے حالیہ برسوں میں اپنےسالانہ بجٹ میں موسمیاتی مالیات کے لیے حصہ مختص کرتے ہوئے اسمیں نمایاں اضافہ کیا ہے۔ 2023-2022 کے بجٹ میں بھارت نے موسمیاتی واقعات اور ماحولیاتی تحفظ کے پروگراموں کے لیے تقریباً 5.8 بلین ڈالرسالانہ بجٹ میں مختص کیے تھے اس میں قابل تجدید توانائی، جنگلات، صاف نقل و حرکت، اور موسمیاتی موافقتکے اقدامات کے لیےرقم شامل تھی۔وہیں بھوٹان جو کے ایک کاربن منفی ملک ہے اورماحولیاتی تحفظ میں ایک رہنما ملک کی حیثیت رکھتا ہےاس نے اپنے قومی بجٹ کا ایک اہم حصہ موسمیاتی تبدیلیوں میں تخفیف اورموافقت کے لیے مختص کررکھاہے۔اسکا اندازہ بھوٹان کے مالی سال23-2022کے سالانہ بجٹ سے لگایا جا سکتا ہے سالانہ بجٹ میں موسمیاتی فنانس کے لیے تقریباً 55 ملین ڈالر مختص کیے تھے۔ اس میں قابل تجدید توانائی،جنگلات کے تحفظ، اورموسمیاتی اسمارٹ زراعت کے لیے فنڈنگ شامل ہے۔ بھوٹان کا مقصد کاربن منفی رہنا ہے اور کل زمین کے 70فیصد سے زیادہ رقبے پر جنگلات کو برقرار رکھنا ہے۔
گزشتہ برس کوپ 28 کے موقع پردبئی میں آئی ایم ایف نے پاکستان سے کہا تھا کہ پاکستان کاسال 25- 2024 کا بجٹ موسمیاتی تبدیلی کے تقاضوں کے مطابق ہونا چاہیے۔ جسمیں موسمیاتی موافقت پر مبنی منصوبہ بندی کے طریقہ کار اور سرمایہ کاری،محکموں میں بجٹ کے استعمال جیسی تمام معلومات ہونی چاہیں۔ یہ بات اہم ہے کے پاکستان نے سال2022-2023 کے بجٹ میں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق پروگراموں کے لیے تقریباً 143 ملین ڈالر مختص کیے تھے۔جو سیلاب کے انتظام، پانی کے تحفظ، اور قابل تجدید توانائی کے اقدامات کے لیے فنڈنگ شامل ہےلیکن اتنا کافی نہیں ہے یہی وجہ ہے کے آئی ایم ایف نے پاکستان سے باقاعدہ موسمیاتی بجٹ رکھنے کا مطالبہ کیا ہےجس طرح بھارت،سری لنکا،نیپال،بنگلہ دیش اور بھوٹان نے کیا ہے۔ واضح رہے 11مئی 2024 کوسپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو پاکستان کلائمیٹ چینج ایکٹ 2017 کے تحت پندرہ دن کے اندر اتھارٹی قائم کرنے اور موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے فنڈز کے قیام مکمل کرنے کا حکم دیا تھا۔تین رکنی بینچ نےپبلک انٹرسٹ لاء ایسوسی ایشن آف پاکستان کی طرف سے دائر کی گئی درخواست کی سماعت کی، جس میں ماحولیاتی تبدیلی سے ملک کو لاحق خطرے کو اجاگر کیا گیا تھا بعد ازاں 17 مئی کو وزیراعظم پاکستان نے پاکستان موسمیاتی تبدیلی اتھارٹی کے قیام کی منظوری دے دی تھی لیکن کلائمٹ جینچ بجٹ ایلوکیشن پرکوئی جواب نہیں آیا ۔
یہ بات بھی اہم ہےکہ اس برس مالی سال 25-2024کی تیاری کے سلسلے میں جو "بجٹ کال سرکلر"حکومت پاکستان کے فنانس ڈویژن نے مختلف محکموں کو ارسال کیا تھا اسمیں گرین بجٹ فارم شامل کیاگیاہے جو یقینا ایک احسن قدم اور وقت کی ضرورت ہے۔لیکن اب بات پرفارمے سے آگے بڑھنی چاہیے اورحقیقی معنی میں پاکستان کے حقیقی دشمن "موسمیاتی تبدیلی" سے نمٹنے کے لیے اقدامات اٹھاتے ہوئے ناصرف موسمیاتی فناننس ،دفاعی بجٹ کی طرز پر رکھنا ہوگا بلکہ عالمی مالیاتی اداروں سمیت کاربن کے اخراج کے بڑے اسٹیک ہولڈرز ممالک جن میں چین،امریکہ جرمنی،فرانس،روس کو آمادہ کرنا ہوگا کے وہ پاکستان میں ابتدائی وارننگ سسٹمز، سیلاب اور خشک سالی کو کم کرنے کے لیے جنگلات اور مینگرووز کی بحالی، موسمیاتی اسمارٹ ایگریکلچر،قابل تجدید توانائی کی طرف منتقلی، ریسرچ، ای-پبلک ٹرانسپورٹ سمیت پائیدار انفرااسٹرکچر اوردیگر شعبوں میں پاکستان کی مدد کریں پاکستان کے لیے اکیلے بدترین موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنا ناممکن ہے جبکے پاکستان پہلے ہی معاشی گرداب میں پھنسا ہوا ہے اوراس ماحولیاتی بگاڑ میں پاکستان کی شراکت داری صرف 9۔0 ہے۔مزید تاخیرمزید انسانی جانوں کی قیمت ہوگی اس لیے فوری اورطویل مدتی پلان کے تحت نئے مالیاتی سال 25-2024 سے موسمیاتی بجٹ مختص کرتے ہوئے موسمیاتی اہداف پر پیشرفت کرناہوگی کیونکہ اسی میں بقا پنہاں ہے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی