عدالت نے لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق درخواستوں پر ڈی آئی جی انویسٹی گیشن کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دے دیا۔ ہوئے سیکریٹری دفاع سے ملک بھر کے حراستی مراکز میں قید شہریوں کی تفصیلات طلب کرلیں۔ سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس نعمت اللہ پھلپھوٹو کی سربراہی میں دو رکنی بنچ کے روبرو لاپتا افراد کی بازیابی کی درخواستوں پر سماعت ہوئی۔ سرکاری وکیل نے موقف اپنایا کہ لاپتا شہری اسماعیل، ادریس اور دیگر کی جبری گمشدگی کا تعین ہوچکا ہے، اہلخانہ کو مالی معاونت دینے کے لیے سمری منظور ہو چکی ہے۔ جسٹس نعمت اللہ پھلپھوٹو نے ریمارکس دیئے کہ آخری سماعت کے بعد کیا کیا اقدامات کیے گئے؟ تفتیشی افسر نے بتایا کہ ایدھی، چھیپا اور دیگر فلاحی اداروں کو خطوط لکھے ہیں، گمشدہ شہری کسی فلاحی ادارے کے پاس بھی موجود نہیں ہیں، سی پی ایل سی اور کچھ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو جواب نہیں ملا۔ سن 2018 سے لاپتا عمر صدیقی کی بازیابی کے لیے مثر اقدامات نہ ہونے پر عدالت نے اظہار برہمی کیا۔ جسٹس نعمت اللہ پھلپھوٹو نے ریمارکس دیئے کہ سندھ ہائیکورٹ میں متعدد لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے کیسز زیر سماعت ہیں، متعدد جے آئی ٹیز اور ٹاسک فورس کے اجلاسوں کے باوجود لاپتا افراد کا سراغ نہیں لگایا جا سکا، سیکرٹری دفاع رپورٹ جمع نہ کرانے کی صورت میں ذاتی حلف نامہ جمع کرائیں۔ عدالت نے ڈی آئی جی انوسٹی گیشن کو ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ہوئے سیکرٹری دفاع سے ملک بھر کے حراستی مراکز میں قید شہریوں کی تفصیلات طلب کر لیں۔ بعدازاں سندھ ہائی کورٹ نے 4 ہفتوں میں پولیس اور دیگر اداروں سے رپورٹس طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کر دی۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی