ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک سلیم اللہ نے کہا ہے کہ اسٹیٹ بینک ڈیجیٹل کرنسی کو متعارف کرانے کیلئے کام کررہا ہے، آئی ایم ایف، ورلڈ بینک سے ڈیجیٹل کرنسی کا جائزہ لینے کیلئے تکنیکی معاونت لی ہے۔ یہ بات انہوں نے پیر کو ڈیجیٹل سپلائی چین فنانس کانفرنس سے خطاب اور میڈیا ٹاک کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا کہ ترسیلات زر بڑھانے کیلئے مڈل ایسٹ سمیت 60 ممالک کو پاکستان کے ساتھ کنیکٹ کررہے ہیں، اگلے سال راست سسٹم کو عرب مانیٹری فنڈ کے کراس بارڈر پیمنٹ سسٹم بونا سے منسلک کردیا جائے گا جس کے نتیجے میں بیرون ملک مقیم 6 کروڑ پاکستانیوں کو اپنی رقوم فوری منتقل کرنے کی سہولت حاصل ہو جائے گی، بونا سسٹم سے منسلک ہونے کے بعد پاکستانی کم سے کم خرچ میں رقم منتقل کرسکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ سمندر پار پاکستانیوں کو بینکاری نظام کے ذریعے ترسیلات بلا معاوضہ فراہم کی جاتی ہیں، حکومت پاکستان ترسیلات زر پر ہونے والے اخراجات ادا کرتی ہے نجی بینکس ایس ایم ایز کو فنانسنگ نہیں کررہے ہیں، ایس ایم ای سیکٹر کو صرف 4فیصد قرضہ ملتا ہے، ایس ایم ای فنانس میں ترقی کا نہ ہونا اسٹیٹ بینک کی بھی ناکامی ہے۔گورنر نے کہا کہ ایس ایم ای ہماری معیشت کا اہم جز ہے جس کا جی ڈی پی میں 40فیصد، برآمدات میں 24 فیصد اور ملازمتوں کی فراہمی میں 80 فیصد حصہ ہے، اسٹیٹ بینک ملک میں ایس ایم ای دوست اور متحرک مالیاتی نظام بنانے میں ناکام رہا ہے، حکومت سے کہا ہے کہ قوانین میں تبدیلی کریں، ایس ایم ای شماری کی جائے اور ایس ایم ایز کو فنانسنگ کے لئے کریڈٹ کوریج کو متعارف کرایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ دو سال میں بینکوں کا جو بہت زیادہ منافع ہوا ہے وہ ہمیشہ نہیں رہنا ہے، شرح سود کو نیچے آنا ہے، بینکوں کو اپنے منافع کو کاروبار فروغ کے لیے سرمایہ کاری کرنا ہوگی، پاکستان میں ہمیں سبسڈی کلچر سے نکل کر حقیقی تجارتی بنیادوں پر قائم کرنا ہوگا، یکم جولائی سے ایس ایم ای کو دیئے جانے والے قرضوں پر حکومت سپورٹ فراہم کرے گی، ٹیکنالوجی کے استعمال سے بینکاری لاگت میں کمی کرسکتے ہیں۔
اس موقع پر ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک نے چیلنج فنڈ کا اعلان کرتے ہوئے ایس ایم ای شعبے میں فنانسنگ فروغ دینے کے لئے نئے طریقہ کار کو متعارف کرانے اعلان کرتے ہوئے توقع ظاہر کی ہے کہ ڈیجیٹل بینکس نئے طریقہ کار کے ساتھ ایس ایم ای فنانس کو فروغ دیں گے اور آئندہ پانچ سال میں ڈیجٹل بینکوں کے ذریعے 2 ہزار ارب روپے لیکویڈٹی کو بینکاری نظام میں لائیں گے۔ انہوں ںے بتایا کہ اسٹیٹ بینک ڈیجیٹل کرنسی کو متعارف کرانے کیلئے کام کررہا ہے، آئی ایم ایف، ورلڈ بینک سے ڈیجیٹل کرنسی کا جائزہ لینے کیلئے تکنیکی معاونت لی ہے، اس بات کا جائزہ لیا جارہا ہے کہ پاکستان میں ڈیجیٹل کرنسی کی کتنی ضرورت ہے، اسٹیٹ بینک ڈیجیٹل کرنسی لانے کیلئے ایویلیو ایشن کے اسٹیج پر ہے۔ تقریب سے خطاب اور میڈیا ٹاک کرتے ہوئے پاکستان بینکس ایسوسی ایشن کے چیئرمین ظفر مسعود نے کہا کہ ڈیجیٹل بینکاری اور ادائیگیوں کو فروغ دینے کے لیے مرکزی ڈیٹا ایکس چینج قائم کرنا ہوگا۔ پاکستان میں انتہائی قیمتی ڈیٹا مختلف اداروں کے پاس موجود ہے جسے ایک جگہ جمع کرکے ڈیجٹل فنانسنگ کو بہتر بنایا جاسکتا ہے اور لاگت میں بھی خاطر خواہ کمی ہوسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نادرا، ٹیلی کام کمپنیوں، بینکوں اور پاور یوٹیلیٹیز کے ڈیٹا پر مشتمل ڈیٹا ایکس چینج قائم کرنا ہوگا۔ بینکس حکومت کی 93 فیصد فنانسنگ کی ضرورت کو پورا کرتے ہیں، حکومت کی فنانسنگ کا 50فیصد کھاتہ داروں کی رقوم سے جبکہ باقی اسٹیٹ بینک سے قرض لے کر حکومت کو دیتے ہیں۔ جیسے جیسے ٹیکس آمدنی بڑھ گی حکومتی قرض کی طلب میں کمی ہوگی۔ ظفر مسعود نے کہا کہ ایس ایم ای ایشیائی اور لاطینی ملکوں میں تیزی سے بڑھ رہی ہے چین میں 100ملین ڈالر کی فنانسنگ دو پلیٹ فارم فراہم کررہے ہیں جس کی لاگت 30فیصد کم ہے جبکہ سنگاپور میں مانیٹری اتھارٹی نے ڈیجیٹل سپلائی چین فنانسنگ کو 225ملین ڈالر مختص کیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اسمارٹ فونز اور موبائل والٹ کی بڑی تعداد کی وجہ سے ڈیجیٹل سپلائی چین فنانسنگ کو فروغ دی جاسکتا ہے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی