i پاکستان

ٹی وی پر بیٹھ کر ہمیں درس دیا جاتا ہے عدالتوں کو کیسے چلنا چاہیے، چیف جسٹستازترین

May 13, 2024

سپریم کورٹ میں صحافیوں کو ہراساں کرنے کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ ٹی وی پر بیٹھ کر ہمیں درس دیا جاتا ہے عدالتوں کو کیسے چلنا چاہیے۔ پیر کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ کیس کی سماعت کی ۔ دوران سماعت چکوال سے تعلق رکھنے والے راجا شیر بلال، ابرار احمد اور ایم آصف ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش ہوئے، چکوال سے تعلق رکھنے والے درخواست گزار کمرہ عدالت میں درخواست دائر کرنے سے ہی مکر گئے۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ میں کوڈ آف کنڈکٹ تشکیل دینے کی درخواست 2022 میں دائر کی گئی تھی۔ اس موقع پر درخواست گزاروں نے موقف اپنایا کہ ہم نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر ہی نہیں کی، اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ کسی نے آپ کے نام اور رہائشی پتے کیسے استعمال کیے؟ کیا آپ بغیر اجازت درخواست دائر کرنے والوں کے خلاف ایف آئی آر کٹوائیں گے؟ ایم آصف نے عدالت میں بیان دیا کہ اگر آپ کی سرپرستی ہوگی تو ہم ایف آئی آر کٹوا دیں گے، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم کیوں سرپرستی کریں؟ ایڈووکیٹ آن ریکارڈ رفاقت حسین شاہ کا کہنا تھا کہ جس ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کے ذریعے درخواست دائر ہوئی ان کا انتقال ہو چکا ہے۔

دوران سماعت چکوال سے تعلق رکھنے والے درخواست گزاروں کے وکیل حیدر وحید سے چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو صرف چکوال والے کلائنٹ ہی کیوں ملتے ہیں؟ ٹی وی پر بیٹھ کر ہمیں درس دیا جاتا ہے عدالتوں کو کیسے چلنا چاہیے، پہلے ہم پر بمباری کی جاتی ہے پھر عدالت میں پیش ہوکر کہتے ہیں کیس ہی نہیں چلانا۔ انہوں نے ریمارکس دیے کہ ملک کو تباہ کرنے کے لیے ہر کوئی اپنا حصہ ڈال رہا ہے، سچ بولنے سے کیوں ڈرتے ہیں؟ وکیل کو اپنا ایڈووکیٹ آن ریکارڈ خود کرنے کا اختیار ہوتا ہے، کونسا مشہور آدمی چکوال میں بیٹھا ہوا ہے؟ گالیاں دینی ہوں تو ہر کوئی شروع ہو جاتا ہے لیکن کوئی سچ نہیں بولتا۔ قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ہم جانچ کے لیے معاملہ پنجاب فرانزک لیبارٹری کو بجھوا دیتے ہیں، اس پر ایڈووکیٹ حیدر وحید نے کہا کہ مجھے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ نے ہدایات دی تھیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ غلط خبر پر کوئی معافی تک نہیں مانگتا، کوئی غلط خبر پر یہ نہیں کہتا ہم سے غلطی ہو گئی ہے، غلطیاں تو جیسے صرف سپریم کورٹ کے جج ہی کرتے ہیں، بس فون اٹھایا اور صحافی بن گئے کہ ہمارے ذرائع ہیں، کسی کے کوئی ذرائع نہیں ہیں، ہم کچھ کرتے نہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ بس پتھر پھینکے جا، باہر کے ملک میں ایسا ہوتا تو ہتک عزت کے کیس میں جیبیں خالی ہو جاتیں۔

کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی