مسلم لیگ ن کے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ جو مسودہ اِس وقت مولانا فضل الرحمان، بلاول بھٹو کیساتھ ڈسکس کر رہے ہیں وہ بڑی حد تک انہی ترامیم کے آس پاس گھومے گا جو حکومت نے تجویز کی ہیں، یہ نہیں ہوسکتا کہ ترامیم پر کوئی نیا مسودہ آ جائے اور حکومت اس پر انگوٹھا لگا دے۔ایک انٹرویو میں عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ دو دن پہلے مولانا فضل الرحمان آئینی ترامیم کیلئے بلائی گئی میٹنگ میں موجود تھے، جہاں 3 گھنٹوں کے دوران ایسا معلوم ہوا کہ انہیں آئینی عدالتوں یا ججز کی تقرری کے فارمولے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ آئینی ترامیم میں نئی آئینی عدالتوں اور ججز کی تقرری 18 ویں ترمیم پر لیکرجانے کا بنیادی نقطہ یکساں ہی رہے گا۔عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ شاید ہم معاملات کو پوری طرح طے کرنے میں انصاف نہیں کر سکے۔ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اور پیپلزپارٹی کو توقع تھی کہ مولانا کی وجہ سے ہمارے نمبر پورے ہو چکے ہیں، جوں ہی مولانا مطمئن ہوتے ہیں آئینی ترامیم آجائیں گی، ہوسکتا ہے کہ ستمبر کے آخر میں آجائیں۔انہوں نے کہا چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع یا اعلی ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ یہ محض میڈیا میں گردش کرنے والی قیاس آرائیاں ہیں ۔انہوں نے کہا کہ آئینی پیکج میں کوئی رکاوٹ نہیں آئی بلکہ یہ اگلے مرحلے کی طرف بڑھ رہا ہے جس میں اتحادی جماعتیں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی فعال کردار ادا کر رہی ہیں۔لیگی سینیٹر نے یقین ظاہر کیا کہ مولانا فضل الرحمن متفق ہوں گے اور جے یو آئی ف اور دیگر جماعتوں کے تعاون سے پارلیمنٹ سے ترامیم منظور کرائی جائیں گی۔ انہوں نے کہا اے این پی اور ایم کیو ایم پاکستان سمیت تمام جماعتوں سے مشاورت جاری ہے اور حکومت ان کے مطالبات مانے گی۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی