جمعیت علما اسلام (ف)کے رہنما سینیٹر کامران مرتضی نے کہا ہے کہ پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو آئینی ترمیم کے مسودے کی شقوں کا علم تھا۔ ایک انٹرویو میں کامران مرتضی نے کہا کہ بلاول بھٹو کہتے ہیں کہ مسودے میں کیا کچھ تھا انہیں معلوم نہیں تھا۔ بلاول بھٹو سے جو باتیں ہوئیں ان سے یہ تاثر ملا کہ انہیں مسودے کی شقوں کا علم تھا۔ بلاول بھٹو نے تو ہمیں یہاں تک کہا کہ کیا کریں مجبوری ہے کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کہاکہ مولانا فضل الرحمان سے زبانی باتوں پر مشاورت کی جارہی ہوتی تھی، تاثر ایسا دیا جارہا تھا جیسے مولانا فضل الرحمان کی تقریر پرکوئی دستاویز بنائی گئی ہے۔سینیٹر کامران مرتضی نے کہا کہ سیاہ لفافے میں ایک دستاویز فضل الرحمان کے گھر بھجوائی گئی، دستاویز پڑھنا ہی شروع کی تھی کہ بلاول بھٹو ملاقات کیلئے آگئے، دستاویزمیں آرٹیکل8میں ترمیم بھی لکھی تھی جس کا ذکربلاول بھٹو سے کیا۔انہوں نے بتایا کہ بلاول بھٹونے کہا کیا کریں مجبوری ہے ترمیم کی حمایت کرنا ہوگی، کاغذ ایک دن پہلے دیا گیا جبکہ دوسرے دن قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا گیا تھا، ہم نے آرٹیکل51 سے متعلق اور آرٹیکل199سے متعلق اعتراض کیا، بلاول بھٹو نے بھی اپنی مجبوریاں بیان کرناشروع کردیں۔
کامران مرتضی نے بتایا کہ کاغذ ہم نے پورا نہیں پڑھا تھا، مجموعی طور پر56کلاز تھیں،اب53کلاز رہ گئی ہیں اس میں بھی بلاول بھٹو نے ایک بڑھائی ہے، طے یہ ہوا کہ اگلے روز ملاقات ہوگی، اعتراضات پر نوٹ تحریر کردیا۔جے یو آئی ف کے رہنما کا کہنا تھا کہ میئر کراچی مرتضی وہاب کو صبح فون کیا تو انہوں نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی میں آپ کا نام ڈلوا دیا ہے، دوسرے دن بلاول سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ آپ رہنمائی کریں ہم سپورٹ کرینگے۔میں نے دوسرے دن تمام کلاز پڑھیں اور مولانا فضل الرحمان کو وائس نوٹ بھیج دیا، جب انہوں نے بلایا تو ان کو تمام صورتحال پر بریفنگ دی، مولانا فضل الرحمان نے حکومت کو آگاہ کیا کہ یہ سادہ بات نہیں ہمیں وقت چاہیے۔کامران مرتضی کا کہنا تھا کہ سویلین کے ملٹری کورٹ میں ٹرائل سے متعلق بلاول نے بتایا کہ اسے مسودے سے نکال دیا گیا ہے۔ ہمارے پاس جو کاغذ ہے اس میں آج بھی سویلین کے ملٹری کورٹ میں ٹرائل کی کلازشامل ہے۔ بلاول بھٹو نے حالیہ میٹنگ میں کہا کہ ہم مل کر ایک دستاویز تیار کرتے ہیں، ان کو کہا کہ آپ اپنی دستاویز تیارکریں اور ہم اپنی دستاویز تیار کرتے ہیں، آج مرتضی وہاب کا فون آیا تھا لیکن ابھی تک ان سے بات نہیں ہوپائی۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی