اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کے انٹرنیشنل میڈیا کوآرڈینیٹر احمد جنجوعہ کی بازیابی کی درخواست نمٹا تے ہوئے سرکاری وکیل کو احمد جنجوعہ سے وکیل اور فیملی کی ملاقات کی ہدایت کر دی ، عدالت نے ریمارکس دیئے کہ لوگ لاپتہ ہو جاتے ہیں، ریاست کو کچھ پتہ نہیں ہوتا، یہ حکومت کیا کر رہی ہے؟۔ پیر کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس ارباب محمد طاہر نے پی ٹی آئی کے انٹرنیشنل میڈیا کوآرڈینیٹر احمد جنجوعہ کی بازیابی کی درخواست پر سماعت کی، اس موقع پر لاپتہ احمد جنجوعہ کی اہلیہ فرہانہ برلاس کی جانب سے ایڈووکیٹ ایمان مزاری عدالت کے روبرو پیش ہوئیں، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ وکیل درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ یونیفارم میں کچھ نقاب پوش 20 جولائی صبح 4 بجے احمد جنجوعہ کو زبردستی اٹھا کر لے گئے، اس پر عدالت نے دریافت کیا کہ کیا وہ پولیس حکام وردی میں تھے؟ وکیل نے بتایا کہ کچھ افسران وردی میں تھے اور کچھ نقاب پوش تھے۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ایڈووکیٹ جنرل کو بلایا ہے، ہم اٹارنی جنرل کو بھی بلائیں گے، جسٹس ارباب محمد طاہر نے کہا کہ ان کے پاس سی سی ٹی وی فوٹیج بھی ہے، پولیس حکام نے بتایا کہ ایف آئی آر ہو چکی ہے، سب انسپکٹر نے ماتحت عدالت سے اجازت لی ہے۔ جسٹس ارباب طاہر نے ریمارکس دیئے کہ بلوچستان، خیبر پختونخوا میں یہ سب کچھ ہو رہا تھا اب اسلام آباد میں شروع ہوگیا ہے، ریاست کو کچھ معلوم نہیں ہوتا، یہ حکومت کیا کر رہی ہے، احمد جنجوعہ کو بازیاب کرانے میں کتنا وقت چاہیے؟ عدالت نے کہا کہ اٹارنی جنرل دن 12 بجے پیش ہوں، اٹارنی جنرل ہمیں بتا دیں ہم کیا کریں۔ جسٹس ارباب طاہر نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ 12 بجے مکمل تفصیلات لے کر آئیں، یہ نہ کہیے گا کہ رپورٹ لائیں گے، کتنے گھنٹے چاہئیں ان کو پیش کرنے کیلئے یہ بتا دیں، 2 گھنٹے میں بندہ لے کر آ جائیں، کیا آئی جی پولیس اپنی ڈیوٹی سر انجام دے رہا ہے ؟ کیوں نہ شوکاز نوٹس جاری کریں؟ بعد ازاں عدالت نے رپورٹ طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت میں 12 بجے تک وقفہ کر دیا۔ سماعت کے دوبارہ آغاز پر اٹارنی جنرل عدالت میں پیش نہ ہوئے، پراسیکیوٹر جنرل، ایڈیشنل اٹارنی جنرل، ایڈووکیٹ جنرل عدالت میں پیش ہوگئے۔
پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ احمد جنجوعہ پر بہت سنجیدہ نوعیت کے الزامات ہیں، اسی کے ساتھ احمد جنجوعہ کے خلاف پرچہ ریمانڈ عدالت میں پیش کیا گیا،عدالت نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی درخواست پر احمد جنجوعہ کی پروڈکشن کی تھی، وکیل ایمان مزاری نے بتایا کہ ان پر الزام ہے کہ دھماکا خیز مواد برآمد ہوا ہے۔ اس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ یہ معاملہ مختلف ہے، پراسیکیوٹر جنرل اسلام آباد نے کہا کہ آج ایف آئی آر درج ہوئی اس میں احمد جنجوعہ کی گرفتاری ہوئی ہے، انسداد دہشت گردی عدالت نے 7 دن کا جسمانی ریمانڈ دیا ہے۔ جسٹس ارباب محمد طاہر نے درخواست گزار کی وکیل سے مکالمہ کیا کہ احمد جنجوعہ کی گرفتاری پولیس نے ظاہر کر دی، اب آپ کے پاس متعلقہ فورم موجود ہے، دریافت کیا کہ کیا آپ نے گرفتاری چیلنج کی ہے؟ اب تو آپ کے پاس متعلقہ فورم موجود ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم اس درخواست میں اس وقت نہیں کہہ سکتے کہ ریمانڈ درست نہیں دیا گیا۔ سرکاری وکیل نے کہا کہ وقاص جنجوعہ کو سنگین نوعیت کے معاملات میں گرفتار کر لیا گیا، ملزم کو ٹرائل کورٹ کے سامنے بھی پیش کیا گیا اور جسمانی ریمانڈ منظور بھی ہوا ہے۔ اس پر وکیل ایمان مزاری نے کہا کہ اگر احمد وقاص جنجوعہ پر مقدمہ تھا تو پھر آج عدالت کے سامنے غلط بیانی کی گئی، ہم عدالت سے درخواست کریں گے کہ سی سی ٹی وی فوٹیج چلائے۔ عدالت نے کہا کہ آپ کی درخواست تو بازیابی سے متعلق تھی اب معاملہ دوسری جانب جا رہا ہے، اس پر وکیل درخواست گزار نے بتایا کہ جنجوعہ کو ٹرائل کورٹ کے سامنے پیش کیا گیا جو ہمیں پتہ ہی نہیں تھا۔ عدالت نے ایمان مزاری سے دریافت کیا کہ آپ چاہتی ہیں کہ ہم مغوی کو یہاں پیش کرنے کا حکم دیں؟ اب مقدمہ درج ہوا ہے آپ اس مقدمے کو چیلنج کریں، آپ کی بازیابی سے متعلق درخواست اب غیر موثر ہوچکی ہے۔ اس پر وکیل ایمان مزاری نے کہا کہ ان کی ایف آئی آر میں 22 جولائی کو گرفتاری ڈالی گئی جبکہ ہماری درخواست 20 جولائی کی ہے، عدالت کے سامنے حبس بے جا میں رکھنے کا معاملہ زیر سماعت ہے، ہماری استدعا ہے کہ وکیل اور فیملی کو ملنے کی اجازت دی جائے۔ بعد ازاں عدالت نے سرکاری وکیل کو احمد جنجوعہ سے وکیل اور فیملی کی ملاقات کی ہدایت دیتے ہوئے احمد وقاص جنجوعہ کی بازیابی کی درخواست نمٹا دی۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی