چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق نے کہا ہے کہ عوام انصاف کیلئے ہماری طرف دیکھتے ہیں اور غصے میں کبھی بھی صحیح فیصلہ نہیں ہوتا، جب کہ ہمارا مقصد کسی کی دل آزاری کرنا نہیں بلکہ دوسروں کی اصلاح کرنا ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے اسلام آباد ہائیکورٹ بار کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ بارصدر نے درست کہاکہ بار اور بنچ ایک ہی ہیں کیونکہ آج کی بار کل کی بنچ ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو ججز اسلام آباد ہائی کورٹ کے صدر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بار بنچ کی نرسری ہے، 10 ، 15 سال بعد آپ میں سے کوئی یہاں کھڑا ہوسکتا، بار نے مستقبل بنانا اور بنچ نے اسے ساتھ لیکر چلنا ہے۔جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ اخلاقیات کچھ دیر میں سمجھائی نہیں جاسکتی، اچھائی اور برائی ہر زمانے میں رہی، اچھائی نے ہی کامیابی حاصل کی اسے اپنانا چاہیے، ہمیں پیشہ وارانہ اچھائی اپنانی ہے۔چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اگر قدروں کا چھوڑ دیں گے تو ہمارہ بطور عام انسان اور بطور وکیل ایسی زندگی نہیں ہو گی، جیسے ہونا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ چیمبر میں صرف وکیل نہیں بنتا بلکہ اخلاقیات اور طریقہ کار سکھایاجاتاہے لیکن چیمبر کا تصور ختم ہوتا جارہا ہے، پہلے جب وکیل آتا تھا تو 6 ماہ سینئر کے ساتھ گزارتا تھا، جونیئر وکیل چیمبر سے بہت سیکھتا تھا، جس سے اس کی گرومنگ ہوتی تھی۔تاہم 10-15 سالوں میں چیمبر والی تربیت ختم ہوگئی ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ عوام انصاف کیلئے ہماری طرف دیکھتے ہیں اور غصے میں کبھی بھی صحیح فیصلہ نہیں ہوتا، جب کہ ہمارا مقصد کسی کی دل آزاری کرنا نہیں بلکہ دوسروں کی اصلاح کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں پروفیشنل گرومنگ کیلئے کبھی کبھا غصہ بھی کرتا ہوں،شائستگی سے کی گئی بات کی اہمیت نہیں رہی ، جج کے غصے میں کیے گئے فیصلے اچھے نہیں ہوتے، ہم نے معاشرے میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔چیف جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ چیمبر انسٹی ٹیوشن کا نظریہ ختم ہوتا جارہا ہے ، پیسہ کمانے سے زیادہ ہمیں اپنی عزت نفس کو بھی دیکھنا ہے ،آج کی بار کل کا بنچ ہے ، بارجوڈیشنل سسٹم میں نرسری کی طرح ہے، بار وکلا کیلئے گپ شپ لگانے کیلئے نہیں بنی بلکہ اپنی استعداد کار بڑھانے کیلئے بنائی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے چیمبر کا حصہ رہا ، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور ان کے والد میاں نثار چیمبر چلاتے تھے، مجھے ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا، وکلا کو نوٹس بنا کر اور کیس کی تیاری کرکے عدالت میں آنا چاہیے۔چیف جسٹس عامرفاروق کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے بزرگوں نے بار انسٹی ٹیوشن کو زندہ رکھا، گزشتہ دس سالوں سے چیمبر کا وجود ختم ہوتا جارہا ہے، بہت سے نوجوان وکلا کو بہت سی چیزوں کا علم نہیں ہوتا، عدالت میں کھڑے ہو کر کیس پیش کرنے کا بھی طریقہ ہے،عدالت میں اچھے سے اٹھنے ، بیٹھنے کا بھی طریقہ ہے، اچھائی اور برائی ہر زمانے میں رہی ہے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی