i پاکستان

عدالتی رپورٹنگ پر پابندی، عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا، اگلے ہفتے سنایا جائے گاتازترین

July 03, 2024

اسلام آباد ہائی کورٹ نے عدالتی رپورٹنگ پر پابندی کا پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی(پیمرا ) کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دینے کی پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس(پی ایف یو جے) اور اسلام آبادہائی کورٹ جرنلسٹ ایسوسی ایشن کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کیس کی سماعت کی، وائس چیئرمین اسلام آباد بار کونسل عادل عزیز قاضی، سینئر وکیل اظہر صدیق عدالت میں پیش، اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر ریاست علی آزاد بھی عدالت پیش ہوئے۔ سماعت کے دوران وکیل اظہر صدیق کی جانب سے مختلف عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیا گیا، وکیل اظہر صدیق نے بتایا کہ پیمرا پابندی معلومات تک رسائی کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے، اگر اس معاملہ کو یہاں روکا نہیں جائے گا تو خطرناک نتائج ہوں گے۔ وکیل اظہر صدیق نے حامد میر اور ارشد شریف شہید کیس کا حوالہ بھی دیا، انہوں نے کہا کہ عدالت شہریوں کے بنیادی حقوق کو نظر انداز نہیں کرسکتی۔ وکیل اظہر صدیق کے دلائل مکمل ہونے پر وائس چیئرمین اسلام آباد بار کونسل عادل عزیز قاضی نے دلائل شروع کردیے، انہوں نے پاکستانی اور بین الاقوامی عدالتوں کے فیصلوں کا حوالہ دیا۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے دریافت کیا کہ ایسا کیا رپورٹ ہوا تھا جس سے احکامات جاری کرنا پڑا؟ آپ سیدھا سیدھا پابندی پر ہی چلے گئے۔ اس پر پیمرا کے وکیل سعد ہاشمی نے جواب دیا کہ پیمرا نے اجازت دی ہے کہ جب تحریری فیصلہ آئے تو رپورٹ کرسکتے ہیں، جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ زمانہ تبدیل ہوچکا ہے، چیزیں تبدیل ہوچکی ہیں، ہمیں ان چیزوں کے ساتھ خود کو ڈھالنا ہے ، اسلام آباد ہائی کورٹ کی بات کروں تو ایسا کچھ نہیں کہ کہیں غلط رپورٹنگ ہوئی ہے، کل میں نے جو کہا وہ بالکل درست رپورٹ ہوا، میں نے ہر سیاسی جماعت کے رہنماں کے کیس سنے لیکن کوئی ایک کیس ایسا نہیں جو مس رپورٹ ہوا، ہم نے کبھی ایسا کچھ نہیں دیکھا کہ یہ کہنا پڑے یہ میں نے کہا ہی نہیں تھا۔

انہو نے مزید کہا کہ اگر کہیں غلط رپورٹنگ ہوئی ہے تو اس کے لیے بھی طریقہ کار موجود ہے، اس پر پیمرا کے وکیل نے بتایا کہ یہ ہدایت میڈیا چینلز کو جاری کی گئی ہیں،انہوں نے سپریم کورٹ کی ایک بھی گائیڈ لائن پر عمل نہیں کیا۔ اس پر عدالت نے استفسار کیا کہ سوال یہ ہے کہ بات پابندی کی طرف کیوں گئی؟ آپ کے سامنے کوئی کمپلینٹ نہیں آئی، ہوتی تو آپ یہاں پیش کر دیتے ، اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایسے کوئی شکایت نہیں بھیجی کہ غلط رپورٹنگ ہوئی ہے، کل ہم نے گھنٹوں سماعت کی لیکن سماعت کا حکمنامہ چار سطروں پر مشتمل تھا، جو عدالتی آبزرویشن ہیں وہ بھی رپورٹ ہوسکتی ہیں۔ اس پر وکیل نے بتایا کہ سپریم کورٹ میں عوامی مفاد کے مقدمات کی لائیو اسٹریمنگ ہوتی ہے، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ عامر فاروق یہاں بھی سب کیس رپورٹ نہیں ہورہے ہیں صرف پبلک نوعیت کے مقدمات رپورٹ ہورہے ہوتے ہیں، آپ بتا دیں غلط رپورٹنگ ہوئی اور پیمرا نے ایکشن لیا ہو، زمانہ آگے جارہا ہے واپس مت جائیں، ہم بہت پیچھے رہ جائیں گے، قانون قاعدے کے حساب سے آپ چلیں تو کوئی عدالت آپ کو نہیں روکے گی۔وکیل پیمرا سعد ہاشمی نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ڈائریکٹو جاری کیا گیا، اس پر وکیل اظہر صدیق نے کہا کہ یہ پتھروں کے دور میں واپس جانا چاہتے ہیں مگر میں نہیں جانا چاہتا، کوئی قانون کی خلاف ورزی کررہا ہے تو قانون کے مطابق طریقہ کار موجود ہے۔ بعد ازاں عدالت نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا، جسٹس عامر فاروق نے بتایا کہ آئندہ ہفتے فیصلہ سنایا جائے گا۔

کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی