تھانہ روات کے علاقے میں ملنے والی خاتون کی لاش کی شناخت کرلی گی، کڑیاں خاتون کے خاوند اور علاقے کے جعلی پیر تک جا ملیں۔تفصیلات کے مطابق لاش دسمبر 2024 میں پراسرار حالات میں لاپتا ہونے والی شادی شدہ خاتون ٹیچر قدسیہ بتول کی نکلی۔ مقتولہ کو اسکی 16 سالہ بیٹی اور دیگر لواحقین نے اضافی چھوٹی انگلی اور دیگر نشانیوں سے شناخت کیا۔خاتون ٹیچر کے بھائی نے دسمبر میں ہی بہنوئی پر ہمشیرہ کو غائب کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے پولیس کو درخواست دے رکھی تھی۔مقتولہ کے پوسٹمارٹم کے بعد ڈی این اے کروانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔پولیس جلد کیس ٹریس کرکے ملزمان کی گرفتاری کے لیے پر امید ہے، کڑیاں خاتون کے خاوند اور علاقے کے جعلی پیر تک جا رہی ہیں۔سینیئر پولیس افسر کے مطابق کیس حل کرنے کی قریب ہیں اور جلد ملزمان کو گرفتار کر لیا جائے گا۔دسمبر 2024 میں مبینہ طور پر اغوا ہونے والی خاتون کی لاش دو دن قبل گوڑا راجگان کے نالے کے قریب سے ملی تھی۔
ابتدائی طور پر خاتون کی موت بظاہر رسی سے پھندا دینے سے ہوئی اور سر پر چوٹ بھی تھی۔لاش کو چھپانے کے لیے رسی کو بھاری پتھر سے باندھ کر نالے میں پھینکا گیا لیکن بارش ہونے پر لاش پانی کے ساتھ بہہ کر نالے کے موڑ پر پھنس کر ظاہر ہوگئی تھی۔مقتولہ کا خاوند دوسری شادی کرنا چاہتا تھا، خاتون 5 دسمبر کو خاوند کے ساتھ کلیام کے دربار پر حاضری کے لیے گئی تھی لیکن پھر گھر نہیں پہنچی۔خاوند محمد امین نے پولیس کو اپنی مدعیت میں اہلیہ کے مبینہ اغوا کا مقدمہ درج کروایا تھا اور انکشاف کیا تھا کہ اہلیہ کی پاس مویشیوں کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم اور زیورات وغیرہ بھی تھے۔مقدمے کے اندراج کے کچھ دن بعد ہی خاتون کے بھائی نے پولیس کو بہنوئی پر ہمشیرہ کو غائب کرنے کا شبہ ظاہر کرکے درخواست دی تھی۔پولیس مقامی سطح پر تفتیش کرتی رہی لیکن مغویہ کا سراغ نہیں لگا سکی۔ تین ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد لاش روات کے علاقے سے ملی جس کے بعد مقدمے میں قتل کی دفعہ کا اضافہ کرکے کیس ایچ آئی یو کے سپرد کر دیا گیا تھا۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی